Book Name:Wilayat o Karamat
میرا بندہ نوافِل کے ذریعے میرا قُرْب حاصِل کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں، پھر جب میں اُس سے محبّت کرتا ہوں تو ٭ میں اُس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے٭میں اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے٭میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے٭میں اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں، جن سے وہ چلتا ہے٭اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اُسے دیتا ہوں٭اگر وہ میری پناہ لیتا ہے تو میں اُسے پناہ دیتا ہوں۔([1])
مشہور مُفَسِّر ِقرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہاِس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: (مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اللہ پاک کا قُرْب حاصِل کرتے کرتے، اُس کا مَحْبُوب ہو جاتا ہے تو اب) بندہ فَنَافِی اللہ ہو جاتا ہے، جس سے اللہ پاک کی دِی ہوئی خاص طاقتیں اُس کے اَعْضا میں کام کرتی ہیں اور وہ ایسے کام کر لیتا ہے، جنہیں عقْل سمجھ نہیں پاتی۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو!کرامت کا مطلب ہے: وَلِیُّ اللہ سے ظاہِر ہونے والا ایسا کام جو عادۃً مُحال ہو۔([3]) یعنی ظاہِری اَسْباب کے ذریعے اس کا ظاہِر ہونا ممکن نہ ہو۔ جیسے: مُردَے کو زِندہ کر دینا، یہ عادۃً ممکن (Possible) نہیں ہے، اگر کوئی وِلِیُّ اللہ اللہ پاک کی عطا سے مُردَے کو زِندہ کر دیں تو اسے کرامت کہیں گے، ایسے ہی صِرْف ہاتھ لگا کر، آنکھ سے دیکھ کر لاعِلاج مریض کو شِفَا دے دینا، کسی آلے (مثلاً موبائِل وغیرہ) کے بغیر دُور سے سُن لینا،