Mata e Ghurur (Dhokay Ke Saman) Ka Sauda

Book Name:Mata e Ghurur (Dhokay Ke Saman) Ka Sauda

کالج، یُونیورسٹیز میں لاکھوں کے اَخراجات ہم کر لیتے ہیں، فیس الگ، ہاسٹل کا خرچہ الگ، کھانے کا خرچہ الگ، ٹیوشن کی فیس الگ، ٹرانسپورٹ کا خرچ الگ یہ سب کچھ برداشت کر لیں گے مگر جامعۃُ المدینہ میں عِلْمِ دِین سیکھنے کے لیے بچے کو داخِل نہیں کروانا۔

وضاحت دے دُوں؛ میں دُنیوی تعلیم کا مُخالِف نہیں ہوں، دُنیا کی جائِز تعلیم، جائِز طریقے سے حاصِل کی جا سکتی ہے، اَلحمدُ لِلّٰہ! دعوتِ اسلامی خُود دُنیوی تعلیم دے رہی ہے،  اللہ  پاک کے فضل سے دارُ المدینہ یُونیورسٹی قائِم ہو چکی ہے۔ غرض؛ دُنیا کی جائِز تعلیم دورِ حاضِر کی ضرورت ہے۔ میں اِس کی مخالفت نہیں کروں گا مگر ہم اپنی ترجیحات کو تو دیکھیں گے نا؛ ہماری ترجیح کیا ہے ٭بچہ قرآنِ کریم پڑھنے گیا یا نہیں گیا، ہمیں پروا نہیں ہوتی، بچہ سکول گیا یا نہیں گیا، اِس کی پروا ہوتی ہے ٭سوشل میڈیا پر فضولیات دیکھتے ہوئے گھنٹوں گزار لیتے ہیں، قرآنِ کریم کی تِلاوت کے لیے ہمیں وقت نہیں ملتا ٭ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، کوئی ضروری کام پڑ جائے، کہیں سَفَر پیش آجائے، ان سب کاموں کے لیے ہماری دُکان بند ہو جاتی ہے، نوکری سے چھٹی(Leave) بھی مِل جاتی ہے، کٹوتی بھی کروا لیتے ہیں، نماز کے لیے دُکان بند نہیں ہو پاتی، نَوکری سے چھٹی نہیں مِل پاتی۔ بلکہ عموماً ملازمین کو دوپہر کا وقفہ ہوتا ہے، چائے پانی اور خوش گپیوں میں گزار دیتےہیں، خیال تک نہیں آتا کہ ظُہر کی نماز ہم نے پڑھنی ہے۔ 12 سے 15 منٹ نماز کے لیے نہیں نکل پاتے۔

پیارے اسلامی بھائیو! میں دوسری دُنیا کی بات نہیں کر رہا، یہ سب ہمارے مُعاشرے کی مثالیں ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟

کِیَا ہے تُو نے مَتَاعِ غُرُور کا سَوْدا    فَریبِ سُود و زِیاں لَا اِلٰہَ اِلَّا  اللہ