Book Name:ALLAH Pak Ki Pehchan
ہاں ایسا ہوتا ہے۔ افسوس! لوگ اپنے آرام کی خاطِر فجر قضا کر ڈالتے ہیں، چند پیسوں کی خاطِر نمازوں میں سُستی کر جاتے ہیں، اللہ پاک کے احکام کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو ترجیح دی جاتی ہے، کتنے تعجب کی بات ہے...!! ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ جبکہ اللہ پاک وہ ہے کہ ہم کچھ نہیں تھے، اس نے ہمیں زندگی عطا فرمائی، اس نے ہمیں پیدا کیا، ہزار طرح کی نعمتیں عطا فرمائیں، آہ! عنقریب ہمیں موت کے گھاٹ اُترنا ہے، قبر میں پہنچنا ہے، اللہ پاک کے حُضُور حاضِر ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے...!!
اے عاشقان ِ رسول! ہم بندے ہیں، ہم مانتے بھی ہیں کہ ہم اللہ پاک کے بندے ہیں، ہمارا عقیدہ ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ ہمیں صحیح معنوں میں بندہ بننے کی حاجت ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن اَدْھَم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایک غُلام کی ضرورت پیش آئی، آپ بازار تشریف لے گئے، ایک غُلام خریدا اور گھر لے آئے، آپ نے اُس غلام سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ غُلام نے کہا: جس نام سے آپ پُکاریں، وہی میرا نام ہو گا، آپ نے پوچھا: تم کیا کھانے کے عادِی ہو؟ غُلام نے کہا: جو آپ کھلا دیں گے، کھا لوں گا، پھر پوچھا: کوئی خواہش ہو تو بتاؤ! غُلام بولا: جو آپ کی خواہش ہے، وہی میری خواہش ہے۔ میں تو غُلام ہوں اور غُلام کو ان چیزوں سے تعلق نہیں ہوا کرتا۔اس پر حضرت ابراہیم بن ادھم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سوچنے لگے: کاش! میں بھی اللہ پاک کا ایسا ہی اطاعت گزار ہوتا تو کتنا بہتر تھا۔([1])
اے عاشقان ِ رسول! اسے کہتے ہیں، بندہ (یعنی غُلام) ہونا، بندہ ہوتا ہی وہ ہے جس کی اپنی کوئی خواہش نہ ہو، جس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو، بندہ ہمیشہ اپنے مالِک کی مرضِی پر چلتا