ALLAH Pak Ki Pehchan

Book Name:ALLAH Pak Ki Pehchan

دے کہ اے پہاڑ! لمبا ہو جا ۔تو پہاڑ فوراً لمبا ہو جائے گا۔ بَس اتنا کہنے کی دیر تھی کہ پہاڑ نے لمبا ہونا شروع کر دیا، آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: اےپہاڑ! رُکْ جا...!! میں نے تجھے حکم نہیں دیا۔ یہ سُنتے ہی پہاڑ ساکِن ہو گیا۔([1])

یہ ہے معرفت کا رُتبہ...!! جسے اللہ پاک کی پہچان مِل جاتی ہے،وہ ایسے بڑے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔

معرفت ملتی کیسے ہے...؟

اب ایک بنیادی سُوال ہے: آخِر اللہ پاک کی معرفت (یعنی پہچان) ملتی کیسے ہے؟ حُضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس تعلق سے بہت تفصیلی کلام فرمایا ہے، آخر میں نتیجہ یہ نکالا کہ اللہ پاک کی معرفت (یعنی پہچان) نہ تو عِلْم سے ملتی ہے، نہ عقل سے، اللہ پاک کی معرفت صِرْف و صِرْف اللہ پاک کے فضل سے ملتی ہے، جس پر اللہ پاک فضل فرما دیتا ہے، اس کو یہ معرفت نصیب ہو جاتی ہے۔ ([2])

اس دُنیا میں بہت سارے لوگ آئے جنہوں نے اپنی عقل سے اللہ پاک کو پہچاننا چاہامگر ناکام رہے، کسی نے اپنے عِلْم سےاللہ پاک کو پہچانناچاہا مگر ناکام رہے، نتیجۃً کسی نے چاند کو خُدا مان لیا، کسی نے سُورج کی پُوجا شروع کر دی اور کوئی درختوں کو اپنا رَبّ ماننے لگا۔   غرض کہ اللہ پاک کی پہچان نہ تو عقل سے ملتی ہے، نہ عِلْم سے ملتی ہے ، یہ پہچان جسے بھی ملتی ہے اللہ پاک کے فضل ہی سے ملتی ہے۔ جب بندے پر اللہ پاک کا فضل ہو جاتا ہے، تب اس کی عقل بھی روشن ہو جاتی ہے اور اس کے دِل میں نُورِ معرفت بھی اُتر جاتا


 

 



[1]...رسالہ قشیریہ، باب کرامات الاولیاء، صفحہ:396۔

[2]...کشف المحجوب، کشف الحجاب الاول فی معرفۃ اللہ، صفحہ:321  خلاصۃً۔