Book Name:ALLAH Pak Ki Pehchan
گئے ہیں، ان دلائل کی ایک قسم دلائِلِ اَنْفُس بھی ہے، یعنی انسان کی ذات، اس کا وُجُود، اس کی چلتی ہوئی سانسیں، اس کی شاہکار تخلیق، اس کا بچپن، جوانی، بڑھاپا وغیرہ انسان کا ہر ہر حال بذاتِ خُود اللہ پاک کے وُجُود کی دلیل ہے، وُجُودِ خُدا کے ایسے دلائل جو انسان کی ذات میں پائے جاتے ہیں، انہیں دلائِلِ اَنْفُس کہا جاتا ہے۔([1]) ابھی ہم نے پارہ:1،سورۂ بقرہ کی آیت:28 سننے کی سعادت حاصِل کی، اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک کی معرفت سے متعلق چند دلائِلِ اَنْفُس بیان کئے گئے ہیں۔
سب سے پہلے تو معرفت سے مُتعلِّق چند باتیں سن لیجئے! پھر ہم اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! آیتِ کریمہ کا ترجمہ اور وضاحت سنیں گے۔
اللہ پاک کی معرفت اَہَم فریضہ ہے
پہلی بات تو یہ اپنے ذِہن میں بٹھا لیجئے کہ سب سے پہلا اور سب سے اَہَم فرض جو ایک انسان پر عائِد ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی معرفت ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہمارے دُنیا میں آنے کا ایک بنیادی مقصد ہی اللہ پاک کی معرفت (یعنی پہچان) ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) (پارہ:27، الذّٰارِیٰت:56)
ترجمہ کنزُ العِرفان:اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں امام مجاہد رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس آیت میں عِبَادت سے مراد معرفت ہے۔([2])یعنی آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے جنّ اور انسان اسی لئے پیدا فرمائے تاکہ میری معرفت حاصِل کریں۔