Book Name:ALLAH Pak Ki Pehchan
ہے۔ پِھر بندے کو کائنات کے ذرّے ذرّے میں رَبّ کریم کے وُجُود اور اس کی قدرتوں کے نشان نظر آنے لگ جاتے ہیں۔
بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو گائے کی پُوجاکیا کرتا تھا، ایک دِن وہ اپنی گائے کو لے کر کسی باغ میں پہنچا، گائے چارہ وغیرہ کھا رہی تھی کہ اچانک بادَل چھا گئے، بجلی چمکنے لگی، بادَل کی خوفناک گرج اور بجلی کی کڑک جب گائے کے کانوں میں پڑی تو گائے ڈر کر بھاگ کھڑی ہوئی۔
یہ وہ وقت تھا جب اس مشْرِک پر اللہ پاک کا فضل ہوا؛ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ گائے جو بادَل کی گرج اور بجلی کی کڑک ہی سے ڈر رہی ہے، یہ ہر گز خُدا نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ کر اس نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور اے بادلوں کے رَبّ کہہ کر اللہ پاک کو پکارنے لگا۔ اسی وقت اللہ پاک نے اس وقت کے نبی علیہ السَّلام کی طرف وحی فرمائی کہ فُلاں شخص ہے، اسے جاکر کلمہ بھی پڑھائیے اور دِین کی بنیادی باتیں بھی سکھا دیجئے! ([1])
یہ ہے اللہ پاک کا فضل...!! جب ہو جائے، اس وقت معرفت نصیب ہو جاتی ہے۔
اللہ پاک کافضل پانے کا طریقہ
اب سُوال یہ ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہم کیسے حاصِل کر سکتے ہیں؟ حُضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جب بندہ اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے تو اسے معرفت ملتی ہے اور اسے معرفتِ حال کہتے ہیں۔([2])