Wiladat e Mustafa Ki Barkat

Book Name:Wiladat e Mustafa Ki Barkat

حضرت  رحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اسے یُوں بیان کیا ہے :

سب چمک والے اُجلوں میں چمکا کیے                         اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی ( [1] )

خلیفۂ اعلیٰ حضرت  مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃُ اللہ عَلَیْہ اس شعر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر سُورج کے سامنے ایک شیشہ سیدھا کر کے رکھ دیا جائے تو  سُورج کی شُعائیں اس شیشے پر پڑنے سے یُوں محسوس ہو گا ، جیسے زمین پر بھی ایک سورج موجود ہے یعنی وہ شیشہ اتنا چمکدار ہو جائے گا لیکن اگر اسی سُورج کے سامنے ، وہی شیشہ الٹا کر کے رکھ دیں ، یعنی شیشے کی کلی والی سائیڈ سورج کی طرف کر دیں تو ایک نہیں ہزار سورج بھی ہوں ، اس کو روشن نہیں کر سکیں گے۔ ہاں ! ایسے اندھے شیشے کو روشن کر دینا ماہِ طیبہ ، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ہی کا کام ہے۔ دیکھئے ! حضرت اسحاق عَلَیْہِ السَّلام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام تک جتنے نبی اور رسول تشریف لائے ، وہ سب بنی اسرائیل میں آئے ، بنی اسرائیل مذہب کو جانتے تھے ، ان کے یہاں ہر زمانے میں دِین کا چرچا رہا ، ایک نبی تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی تشریف لے آتے تھے ، یُوں گویا بنی اسرائیل ایک سیدھے رکھے ہوئے شیشے کی طرح تھے ، انہیں صِرْف سورج کی شعاؤں کی ضرورت تھی جو نبیوں کی تشریف آوری سے پُوری ہو جاتی اور ان کے دِل جگمگانے لگتے تھے لیکن قربان جائیے ! ہمارے آقا و مولیٰ ، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی نرالی شانیں ہیں ، آپ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم عرب میں تشریف لائے ، بنی اسماعیل میں تشریف لائے ، یہ وہ لوگ تھے کہ ان کے یہاں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلام کے بعد کوئی نبی تشریف نہیں لائے تھے ، یہ لوگ دِینی لحاظ سے گہرے اندھیروں میں تھے ، انہیں نہ مذہب کا عِلْم تھا ، نہ نبوت کو جانتے تھے ،


 

 



[1]... حدائقِ بخشش ، صفحہ : 140۔