Book Name:Nematon ka Shukar Ada Karnay ka Tariqa
نوازشوں کو یکسر بُھول کر ناشکری کے الفاظ اپنے مُنہ سے نکالنے لگتا ہے جیساکہ حضرت حسن بن ابوحسن رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اس آیت ِمبارکہ
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶) (پ۳۰،العٰدیٰت : ۶)
ترجمہ ٔ کنز العرفان : بیشک انسان ضرور اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے۔
کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان بڑا ناشکرا ہے یعنی مصیبتیں گنتارہتا ہے اور نعمتیں بھول جاتا ہے۔ (شکرکے فضائل ، مکتبۃ المدینہ)جبکہ ہمارے اَسلاف کا یہ حال تھاکہ بیماری ہو یا تندرستی،آسانی ہو یا دشواری ، خوشی ہو یا غمی ہر حال میں اللہ پاک کے شکرگزار رہتے۔ چنانچہ
مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ” آنسوؤں کا دریا “ صفحہ211 پر ہے کہ اِہل دمشق میں سے ایک شخص جس کا نام اَبُوعَبْدُالرَّب تھا،یہ شخص پورے دمشق میں سب سے زیادہ مالدار تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر نکلاتو اُسے ایک نہر کے کنارے کسی چراگاہ میں رات ہوگئی چنانچہ اس نے وہیں پڑا ؤ ڈال دیا۔ اسے چراگاہ کی ایک جانب سے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی کثرت سے اللہ پاک کی تعریف کررہاتھا ۔ وہ شخص اس آواز کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چٹا ئی میں لپٹا ہوا ہے۔ اس نے اس شخص کوسلام کیا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ تو اُس شخص نے کہا : ایک مسلمان ہوں۔ اس دمشقی نے اس سے پوچھا : یہ کیا حالت بنارکھی ہے ۔ تو اس نے جواب دیا : یہ نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔ دمشقی نے کہا : تم چٹائی میں لپٹے ہوئے ہو یہ کونسی نعمت ہے ؟ اس نے کہا : اللہ پاک نے مجھے پیدا فرمایا تو میری تخلیق کواچھا کیا اور مجھے مسلمانوں میں پیدا فرمایا اور میرے اعضاکو تندرست کیا اور جن چیزوں کا ذکر مجھے ناپسندہے انہیں چھپایا تو جو میری طر ح شام کرتاہو اس سے بڑھ کر نعمت میں کون