Book Name:Baron Ka Ihtiram Kejiye
یعنی جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ اَدب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہمارے بڑوں میں ہمارے اساتذۂ کرام بھی شَامل ہیں ، ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْناپنے اُستادوں کا بے حد ادب واحترام کرتے تھے ، ان کی موجودگی میں نگاہیں جُھکائے ، خاموشی کے ساتھ عِلْم حاصل کرتے اور بعض تواپنے استاد صاحب کا اس قدر ادب کرتے کہ ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ بتانا بھی بےادَبی تصور کرتے تھے۔ آئیے! اس تعلق سے دو (2)واقعات سُنتے ہیں ، چنانچہ
حضرت امیر ِ مُعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے حضرت امام حُسَیْن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی علمی مجلس کی تعریف کرتے ہوئے ایک قُرَیْشِی شخص سے فرمایا : مسجدِ نبوی میں چلے جاؤ ، وہاں ایک حلقےمیں لوگ پوری توجہ کے ساتھ یُوں باادب بیٹھے ہوں گے گویا اُن کے سروں پر پرندےبیٹھے ہیں ، جان لینا یہی حضرت امام ابوعبدُاللہ حُسَیْن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی مجلسہے۔ مزید فرمایا : اس حلقے میں مذاق نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔ ( تاریخ ابن عساکر ، حسین بن علی بن ابی طالب ، ۱۴ / ۱۷۹ملخصاً)
اسی طرح حضرت سہل بن عبدُاللہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ سےکوئی سُوال کیا جاتا ، تو آپ جواب نہیں دیتے تھے۔ ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پُشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا : آج جو کچھ پُوچھنا چاہو ، مجھ سے پوچھ لو۔ لوگوں نے عرض کی ، آج کیا مُعَامَلَہ ہے؟آپ تو کسی سُوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا : جب تک میرے اُستاد حضرت ذُوالنُّون مِصریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ ظاہری زندگی سے مُتَّصِف تھے ، ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے پرہیز کرتا تھا۔