Book Name:Taqwa o Parhezgari
حضرت اعمش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس کا سرمایہ تقویٰ ہوزبانیں اس کانفع بیان نہیں کرسکتیں۔
(الرسالۃ القشریۃ ، باب التقوی ، ص۱۴۳ ، قول ابوالحسن زنجانی)
ایک مرتبہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قبر ستان والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : “ اے اہل قبور! تمہارے مرنے کے بعد تمہارے مال تقسیم ہوگئے ، عورتوں نے نئے نکاح کرلئے ، یہ تو تمہارے بعد ہماری خبر ہے ، اب تم بتا ؤ کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ “ پھر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے لوگو ! اگر انہیں کلام کرنے کی اجازت ہوتی تو اس طر ح کہتے : “ بے شک بہترین زادِ راہ تقوی ہے۔ “ (عیون الحکایات ، ص ۲۳۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
حضرت امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ حصولِ تقویٰ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : نفس کو پورے عزم و ثبات (استقامت)سے ہر معصیت (گناہ)اور ہر طرح کے فضول حلال (مباح )سے دور رکھا جائے۔ ایسا کرنے سے بدن کے ظاہری وباطنی اعضا صفتِ تقویٰ سے موصوف ہوجائیں گے۔ آنکھ ، کان ، زبان ، دل ، پیٹ ، شرمگاہ اور باقی جملہ اعضا اور اجزائے بدن میں تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔ اور نفس تقویٰ کی لگام میں اچھی طرح آجائے گا۔ دین کو ضرر و نقصان سے بچانے کے لیے ان مذکورہ پانچ اعضا( آنکھ ، کان ، زبان ، دل ، پیٹ ، شرمگاہ)کو ہر معصیت (نافرمانی) ، ہر حرام ، ہر فضول حلال اور ہر اِسراف سے حفاظت میں رکھنا ضروری ہے ، جب ان اعضا کی حفاظت ہوگئی تو امید ہے کہ بدن کے باقی اعضا بھی محفوظ ہوجائیں گے اور بندہ مکمل طور پر تقویٰ کی صفت سے موصوف ہوجائے گا۔ ( منہاج العابدین ، ص٦١)