Book Name:Taqwa o Parhezgari
دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آج پھر باغ کامالک بہت سارے لوگوں کے ساتھ باغ کی طرف آرہاہے ۔ میں سمجھ گیا کہ میرے اس و اقعہ کی خبر اس نے لوگوں کو دی ہوگی اس لئے لوگ مجھے ملنے آرہے ہیں ۔ چنانچہ میں چھپ کر با غ سے نکل گیا ، وہ لوگ با غ میں داخل ہوئے ، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ مجھے باغ میں تلاش کرتے رہے لیکن میں انہیں نہ ملا ، میں وہاں ہوتا تو انہیں ملتا میں تو وہاں سے باہرآگیا تھا ۔ وہ لوگ کافی دیر تک مجھے ڈھونڈتے رہے بالآخر تھک ہار کر واپس چلے گئے اور میں نے کسی سے بھی ملاقات نہ کی۔ (عیون الحکایات ۱ / ۲۲۳ ، ۲۲۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُبْحٰنَ اللہ !تقوی ہو تو ایسا کہ اتنا عرصہ باغ میں رہنے کے با وجود بھی وہاں سے کوئی چیز نہ کھائی حالانکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اگر وہاں سے انگور کھاتے تو مالک کوکوئی اعتر اض نہ ہوتا لیکن یہ ہمارے بزرگان دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی شان ہے کہ وہ تقوی وپرہیزگاری کے پیکر اپنے پیٹ میں حرام تو کیا بلکہ ایسا لقمہ بھی نہیں جانے دیتے کہ جس میں ذرہ برابر بھی شک ہوتا ، نیز یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا وآخرت کی بھلائیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ تقویٰ وپرہیز گاری ہے ، تَقْویٰ مشکلات سے نجات ، رزق میں فَراخی اور مہمات (اہم اُمور)میں آسانی کا ذریعہ ہے ۔ جنت پرہیزگاروں کا ٹھکانہ ہے۔ انہیں موت کے وقت سہولت وآسانی نصیب ہوگی ۔ اُن کی عزت افزائی کی جائے گی۔ اور جو تقوی اختیار کر لیتا ہے وہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے حرام چیزوں سے مکمل طور پہ بچ جاتا ہے۔ اگرہم اللہ پاک کے حکم کے مطابق تَقْویٰ اِختیار کر لیں تو دنیا و آخرت کی نعمتیں ہمار ا مُقَدَّر بن جائیں گی۔
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ تقوی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ہر اس چیز اور کام سے بچنے کانام تقویٰ ہے جس سے دین میں نقصان پہنچنے کاخوف واندیشہ ہو۔ (منہاج العابدین ، ص٦٠)