Book Name:Taqwa o Parhezgari
اخلاق جس سے وہ لوگوں کے ساتھ پیش آئے ۔ (شعب الایمان ، باب فی حسن الخلق ، فصل فی الحلم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۸۴۲۳ ، ج ۶ ، ص۳۳۹)
(۶) : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ارشاد فرماتی ہیں : “ میرے سر تاج ، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کو سوائے صاحبِ تقویٰ کے دنیاکی کوئی چیزاورنہ کوئی شخص خوش کرتاتھا۔ “
(المسندللامام احمدبن حنبل ، مسندعائشۃ ، الحدیث : ۲۴۴۵۷ ، ج۹ ، ص۳۴۱)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم متقی شخص کو پسند فرماتے ہیں۔ تقویٰ ایک ایسی خصلت ہے کہ جواسے اختیارکرلیتاہے دنیاو آخرت کی بھلائیاں اس میں جمع ہوجاتی ہیں۔ اسلام میں اس کی عظمت اورعُلمائے حقہ کی نظر میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ یہ حضرات اپنے خطبوں ، بیانات اورمواعظ کا آغاز تقویٰ کی نصیحت سے کرتے ہیں۔ اسی طرح اَکابرین سےجب کوئی نصیحت کاطلبگارہوتاتویہ حضرات اسے اکثر و بیشترتقویٰ وپرہیزگاری کی نصیحت کیا کرتے۔
تقوی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ “ علم کو اس وجہ سے شرافت وعظمت حاصل ہے کہ علم تقوی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور تقوی کی وجہ سے بندہ اللہ پاک کے حضوربزرگی اورابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ “ (راہ علم ۱۵)
شیخ طریقت ، امیر اہلسنت ، حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب فیضان سنت صفحہ 189 پرتقوی سے متعلق ایک بزرگ کا واقعہ نقل فرماتے ہیں : حضرت امام