Taqwa o Parhezgari

Book Name:Taqwa o Parhezgari

ہوسکے۔ میں ساحلِ سمندر پر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا : “ مجھے اپنے انگوروں کے باغ کی دیکھ بھال کے لئے ایک با غبان کی ضرو رت ہے کیا تم اُجرت پر میرے با غ کی نگہبانی کے لئے تیار ہو؟ “  میں نے کہا : “ جی ہاں! میں تیارہوں۔ “

    چنانچہ میں اس شخص کے ساتھ چلا گیا اور خوب محنت ولگن سے اپنا کام کرتا رہا ۔ مجھے اس باغ میں کام کرتے ہوئے جب کافی دن گزرگئے تو ایک دن با غ کا مالک اپنے کچھ دو ستوں کے ساتھ با غ میں آیا اور مجھے بلاکر کہا : “ ہمارے لئے بہترین قسم کے میٹھے انگور توڑ کر لاؤ ۔ “ یہ سن کر میں نے اپنی ٹوکری اُٹھائی اور ایک بیل سے کافی انگور لاکر اس با غ کے مالک کے سامنے رکھ دیئے۔ جب اس نے انگور کا دانہ کھایا تو وہ کھٹا تھا ۔ اس نے مجھ سے کہا : “ اے با غبان !تجھ پر افسوس ہے ، کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تُواتنے دنوں سے اس با غ میں کام کر رہا ہے او رابھی تک تجھے کھٹے اور میٹھے انگوروں کی پہچا ن نہ ہو سکی حالانکہ تُو یہاں سے انگور وغیرہ خوب کھاتا ہوگا ۔ “

    میں نے کہا : “ اللہ پاک کی قسم! میں نے آج تک اس با غ سے انگور کا ایک دانہ بھی نہیں کھایا ، پھر مجھے کھٹے او رمیٹھے انگوروں کی پہچان کس طر ح حاصل ہوسکتی ہے ، مجھے تو صرف اس باغ کی دیکھ بھال کے لئے خادم رکھا گیا تھا ، لہٰذا میں دیکھ بھال توکرتا رہا لیکن اس با غ میں سے انگور کا ایک دانہ بھی نہ کھا یا ۔ “

     حضرت  ابراہیم بن ادہم  رَحْمَۃُ  اللہِ عَلَیْہِ سے یہ جواب سن کربا غ کا مالک اپنے دوستوں کی طر ف متوجہ ہوا او رکہنے لگا : “ تمہاری کیا رائے ہے ؟کیا اس سے بھی زیادہ کوئی عجیب بات ہوسکتی ہے کہ ایک شخص اتنے عرصہ تک با غ میں رہے اور پھر اِتنی ایمانداری سے رہے کہ وہاں سے ایک دانہ بھی نہ کھائے ؟یہ شخص تو ابراہیم بن ادہم  رَحْمَۃُ  اللہِ عَلَیْہِ کی طر ح متقی او رپر ہیزگا ر معلوم ہوتا ہے (اس باغ والے کو معلوم نہ تھا کہ یہی حضرت  ابراہیم بن ادہم  رَحْمَۃُ  اللہِ عَلَیْہِ ہیں)حضرت  ابراہیم بن ادہم  رَحْمَۃُ  اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : “ پھر میں اپنے کام میں لگ گیا اوربا غ کامالک وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ “