Book Name:Naik Amaal Raahe Nijaat
اِحْتِساب کی کس قدر تَرْغِیْب دِلائی گئی ہے ، لہٰذا اگر ہم آخرت کی سُرْخْرُوئی چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح غور کرلینا چاہئے کہ ہم نے اپنے رَبّ کو راضی کرنے کے لئے کتنی نیکیاں کیں ، بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے روزانہ بِلاناغہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی عادت بنائے ، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یونہی غفلت کی حالت میں ہمیں مَوْت آجائے اور ہمارے دامن میں پچھتاوے کے سِوا کچھ باقی نہ رہے ۔
یاد رہے کہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں اِحْتِسابِ اَعْمال یا مُحاسَبہ ہی کو “ اعمال کا جائزہ “ کہا جاتا ہے۔ اعمال کا جائزہ لینے سے مُراد یہ ہے کہ انسان اُخْرَوی اِعتبار سے اپنے معمولاتِ زندگی پر غور و فِکْر کرے ، پھر جو کام اُس کی آخرت کے لئے نُقْصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں ، اُن کی اِصْلاح کی کوشش کرے اور جو کام اُخْرَوی اِعتبار سے نَفْعْ بَخْش نظر آئیں اُن میں بہتری کے لئے اِقْدامات کرے۔ اِسْتِقامت کے ساتھ اعمال کا جائزہ لینے سے خُوب خُوب برکتیں حاصل ہوتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نہایت اِسْتِقامت کے ساتھ اپنے اعمال کا جائزہ لیا کرتے تھے اور اس سے کسی صُورت بھی غفلت اِخْتیار نہ کرتے ۔ چنانچہ ،
حضرت محمد بن واسِعْ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اہْلِ بَصْرہ میں سے کسی شخص نے حضرت ابو ذَر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی وفات کے بعد اُن کی زوجۂ مُحْترِمہ سے اُن کی عِبادت کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا : وہ دن بھر گھر کے ایک کونے میں (آخرت کے بارے میں )غور و فِکْر کرتے رہتے تھے ۔ ([1])