Book Name:Faizan e Ramzan

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  کے والِدِ محترم ، مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : ایک شخص تھا ، اسے صدقہ وخیرات کا بہت شوق تھا ، جو ہاتھ آتا راہِ خُدا میں خرچ کر ڈالتا تھا ،  صدقہ وخیرات بہت اچھا ، نیک عَمَل ہے مگر اس شخص کے رشتہ داروں کو اس کا یہ کام بُرا لگتا تھا ، وہ اس سے تنگ آتے کہ جو آتا ہے سب کچھ ہی خرچ کر ڈالتے ہو ، آخر اس کے رشتہ داروں نے اسے قید کر دیا اور کھانا پانی بھی بند کر دیا تاکہ یہ(مَعَاذَ اللہ!)صدقہ وخیرات سے باز آجائے۔ چند دِن کے بعد جب اسے آزاد کیا گیا تو رشتے داروں کا تو یہ خیال تھا کہ اب یہ خرچ میں کمی کرے گا مگر اس نے پہلے سے بھی زیادہ صدقہ خیرات کرنا شروع کر دیا۔ رشتہ داروں نے کہا : کیا تمہیں اس قید اور مشقت سے بھی سبق نہیں ملا؟ وہ شخص بولا : سبق ملا ہے اور اس سبق پر ہی عمل کر رہا ہوں ، پہلے جب میں بھوک ، پیاس اور فاقے سے خود گزرا نہیں تھا ، اس وقت بھی مجھ سے کسی کی غربت دیکھی نہیں جاتی تھی ، اب تو میں غربت اور بھوک پیاس کی شِدَّت سے آگاہ ہو گیا ہوں ، اس لئے اب پہلے سے زیادہ صدقہ وخیرات کرتا ہوں۔ ([1])

معلوم ہوا روزہ ہمیں بھوک اور پیاس کی شِدَّت کا اِحْسَاس دلاتا ہے ، غریبوں کی غربت کا اِحْسَاس دلاتا ہے ، اس لئے رمضان المبارک کو ماہِ مُؤاسات کہا جاتا ہے۔ اے عاشقان رسول !  یہیں سے یہ راز بھی کھل گیا کہ روزے کی حالت میں گلا سوکھ جانا ، آنتوں کا خشک ہو جانا ، بھوک اور پیاس کا خوب اِحْسَاس ہونا روزے کے مقاصِد میں سے ہے۔ اگر


 

 



[1]...جواہر البیان ، صفحہ : 94بتغیر قلیل۔