Book Name:Meraj K Mojzaat 27 Rajab 1442

شعر کا مفہوم : اَصْل بات یہ ہے کہ ہمارے آقا ومولیٰ ، مُحَمَّد مصطفےٰ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  رُوْحِ کائنات ہیں ، رُوْح نکل جائے تو جسم رُک جاتا ہے ، اسی طرح جب رُوْحِ کائنات ، فَخْرِ مَوْجُودات  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  اس کائنات سے نکل کر لامکاں کی طرف تشریف لے گئے تو کائنات رُک گئی ، ہر چیز پر سکتہ طاری ہو گیا ، پھر جب آپ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  واپس تشریف لائے تو کائنات دوبارہ زِندہ ہو گئی اور ہر چیز پھر سے حرکت کرنے لگی۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

مِعْراج شریف سے مُتَعَلِّق وَسْوَسے کا علاج

شیخ شہاب الدین سہروردی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :  شیخ ابنِ سکینہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک مرید تھا ، اس کی ذِمّہ داری تھی کہ ہر جمعۃ المبارک کو صُوفیائے کرام کے مُصَلّےلے جا کر جامع مسجد میں بچھاتا ، پھر نمازِ جمعہ کے بعد جب صُوفیائے کرام نماز سے فارغ ہو جاتے تو مُصَلّے لا کر واپس خانقاہ میں رکھ دیتا ، ان مُرید صاحب کو سرکارِ عالی وقار ، مدینے کے تاجدار  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے سَفَرِ معراج شریف سے متعلق وسوسے آیا کرتے تھے۔ اَیک مرتبہ جمعہ کا دِن تھا ، نمازِ جمعہ کے بعد ان کے گھر کچھ مہمانوں نے آنا تھا ، چنانچہ مہمانوں کے کھانے کے لئے انہوں نے بازار سے مچھلی خریدی ، گھر بچوں کی امی کو دی اورپکانے کو کہا ، خودصُوفیائے کرام کے مُصَلّے اُٹھائے اور جامع مسجد کی طرف چل پڑے ، راستے میں دریائے دجلہ کے قریب سے گزر ہوا ، سوچا ابھی کافِی وقت ہے ، کیوں نہ غسل کر لوں ، کپڑے اُتار کر کنارے پر رکھے ، پانی میں غوطہ لگایا ، سَر اُٹھایا تو نہ دجلہ ہے ، نہ کپڑے ہیں ، یہ جگہ ہی کوئی اَور تھی ، پردے کا اہتمام کر کے دریا سے باہر آئے ، لوگوں سے پوچھا : یہ کون