Book Name:Apni islah kesay Karain

تشریف لائے اور دریا پار جانے کے لئے کشتی کا انتظار کرنے لگے ، اتنے میں حضرت حبیب عجمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  بھی آگئے ، انہوں نے پوچھا : حُضُور! کہاں  جانے کا ارادہ ہے؟ فرمایا : دَرْیَا پار جانا ہے ، کشتی کا انتظار کر رہا ہوں۔ حضرت حبیب عجمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے کہا : اللہ پاک پر توکل کیجئے اور دَرْیَا پار کر لیجئے! یہ کہہ کر حضرت حبیب عجمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  پانی کے اُوپر چلتے ہوئے دریا کے دوسرے کِنَارے چلے گئے ، امام حَسَن بصری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے یہ منظر دیکھا تو غَشْ کھا کر زمین پر تشریف لے آئے ، جب ہوش آیا تو لوگوں نے بےہوشی کا سبب پوچھا ، فرمایا : حبیب عجمی نے عِلْم مجھ سے سیکھا ، آج اسے بغیر کشتی کے دَرْیَا پار کرتے دیکھا تو مجھے قیامت کا منظر یاد آگیا ، روزِ قیامت جہنّم کی پشت پر پُل صِراط رکھ دیا جائے گا اور اس سے گزرنے کا حکم ہو گا ، آہ! اگر وہاں بھی ایسا ہی ہوا ، لوگ پُل صِراط سے گُزر گئے اور میں محروم رِہ گیا تو کیا بنے گا؟ بَس اسی دہشت سے میں بےہوش گیا۔

پُل صراط آہ! ہے تلوار کی بھی دھار سے تیز         کس طرح میں اسے پار کروں گا یارَبّ! ([1])

چند دِن کے بعد امام حَسَن بصری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی حضرت حبیب عجمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  سے دوبارہ ملاقات ہوئی ، امام حَسَن بصری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے پوچھا : حبیب! تم نے یہ رُتبہ کیسے پایا؟ عرض کیا : حُضُور! میں اپنے دِل کی اِصْلاح کرتا رہتا ہوں۔ یہ سُن کر امام حَسَن بصری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے عاجزی کرتے ہوئے فرمایا : افسوس! لوگوں نے میرے عِلْم سے فائدہ اُٹھایا مگر میں اپنے لئے کچھ نہ کر سکا۔ ([2])

اللہ اکبر!اے عاشقانِ رسول! غور کیجئے! ہمارے بزرگانِ دین کی سوچ کیسی نِرَالی تھی ،


 

 



[1]...وسائِلِ بخشش ، صفحہ : 85۔

[2]...تذکرۃالاولیاء ، صفحہ : 41۔