Book Name:Pul Sirat K Ahwal

بائیں لوگوں کو دیکھیں گے کہ جہنم میں گر رہے ہوں گے جبکہ غمخوارِاُمَّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  فرما رہے ہوں گے : “ یَارَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ یعنی اے میرے رب ان کو بچا لے بچالے۔ پل صراط سے کثیر لوگوں کے پھسلنے کے سبب جہنم کی گہرائی سے  تباہی و بربادی کی چیخ وپکار سنائی دے گی ، مگر اب   ہماری ندامت ہمیں  کچھ نفع نہ دے گی اگر ہمارا قدم بھی پھسل گیا تو سوچئے کیسا منظر ہو گا؟ اب  حالت یہ ہوگی کہ  ہم موت موت پکاریں گے اورکہیں گے : اس دن سے تو ڈرتے تھے ، اے کاش! اپنی اس زندگی کے لئےکچھ آگے بھیجتے ، کاش! سنتِ نبوی پر چلتے ، ہائے خرابی ، کاش! کسی طرح فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ، کاش! میں مٹی ہوتا ، کاش! میں بھولی بسری یعنی بھولی ہوئی چیز ہوتا ، ہائےکاش! میری ماں نے ہی مجھے نہ جنا ہوتا۔ اس وقت آگ کے شعلے اُچک لیں گے اور ایک پکارنے والا کہے گا : دھتکارے پڑے رہو اس میں اور بات نہ کرو۔ اب رونے دھونے ، چیخنے چلانے اور مددمانگنے کے سوا کوئی راستہ نہ ہو گا۔

ہےسرپربارِعِصیاں پُل صِراط اب پارہوکیسے                              سنبھالوورنہ دوزخ میں گِروں گایارسولَ اللّٰہ([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                                  صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے میرے پیارے اسلامی بھائیو! جب یہ سارے خطرے ہمارے سامنے ہوں تو بتائیے اس وقت  ہم اپنی عقل کو کیسا دیکھتے ہیں؟ اگر ہم ان چیزوں پر ایمان  رکھنے کے باوجود اس سے غفلت اور اس کی تیاری کے معاملے میں سستی کا شکار  ہیں توہمارا نقصان اور سرکشی بہت بڑی ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں کہ اے مومن  تیرا ایسا


 

 



[1]   وسائل بخشش ، ص 323۔