Book Name:Buri Sohbat Ka Wabal
کر ٹال دیا کہ ابو جان! آپ فکر نہ کیجئے میں ان جیسا نہیں بنوں گا ۔ والدمحترم نے اپنے بیٹے کو عملی طور پر سمجھانے کا ارادہ کرلیا اور ایک دن گھر میں بہت سارے آلوبخارے(Prunes) لے آئے ، اس میں کچھ آلوبخارے گھر والوں نے کھالئے ، جب باقی آلو بخارے رکھنے لگے تو بیٹے نے کہا : ابوجان! ان میں ایک گلا سڑا آلوبخارا بھی ہے اسے نکال دیجئے ، والد صاحب بولے : ابھی رہنے دو ، کل دیکھیں گے ۔ دوسرے دن جب باپ بیٹے نے آلو بخارے دیکھے تو گلے سڑے آلو بخارے کے قریب والے آلو بخارے بھی خراب ہوچکے تھے ۔ اب والد صاحب نے بیٹے کو سمجھایا : دیکھا بیٹا! صحبت کا کتنا اثر ہوتا ہے ! ایک سڑے ہوئے آلو بخارے کی صحبت سے دوسرے اچھے والے آلوبخارے بھی خراب ہو گئے! بچے کی سمجھ میں آ گیا اور اس نے بُرے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے سے توبہ کرلی۔ (دودھ پیتا مدنی منا ، ص۲۷ بتغیر قلیل)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا کہ ایک عقلمند باپ نے اپنے بچے کو بُری صحبت سے روکنے کا کیسا پیارا طریقہ اختیار کیا کہ اس نے ایک ننھے ذِہْن کے مُطابق عام سی مثال کے ذریعے اسے بُری صحبت کے نُقصان سے آگاہ کیا تو بیٹے نے بھی بآسانی اپنے باپ کی بات یہ سوچ کر قبول کرلی کہ جس طرح ان گلے سڑے آلو بخاروں کے درمیان رہ کر اچھے آلو بخارے بھی خراب ہوگئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ بُرے دوستوں کی صحبت کی نحوست کے سبب میں بھی ان جیسا بن جاؤں!غور کیجئے کہ ایک طرف تو ایسے خوش نصیب والدین کا شاندار کردار ہمارے سامنے ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے معاشرے میں ایسے نادان بھی ہیں جو اپنی اولاد کو اچھی صحبت میں بیٹھنے کی ترغیب دِلانا تو دُور کی بات ہے ، اچھی صحبت میں بیٹھنےسے ہی روکتے ہیں ، پھر بسا اوقات یہی اولاد جب بُری صحبت کا شکار ہوکر بِگڑ جاتی ہے تو والدین اپنے کئے پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں(یعنی پچھتارہے ہوتے ہیں) مگر’’اب پچھتائے کیا ہُوَت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ ‘‘لہٰذا پھر لاکھ کوششوں کے