Book Name:Buri Sohbat Ka Wabal

سانپ کی صحبت جان لیتی ہے ، بُرے یار کی صحبت ایمان برباد کردیتی ہے۔            (مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۵۹۱)

بُری صحبت بربادیِ ایمان کا سبب ہے

   حضرت سَیِّدُنا علامہ محمد بن احمد ذَہبی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک شخص شرابیوں کی صُحبت میں بیٹھتا تھا  جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو کسی نے کَلِمہ شریف کی تلقین کی تو کہنے لگا : تم بھی پیو اور مجھے بھی پلاؤ۔ مَعَاذَ اللہ بِغیر کَلِمہ پڑھے مرگیا (جب شرابیوں کی صُحبت کا یہ حال ہے تو شراب پینے کا کیا وَبال ہو گا !)ایک شطرنج کھیلنے والے کو مرتے وقت کَلِمہ شریف کی تلقین کی گئی تو کہنے لگا : شاھَکَ (یعنی تیرا بادشاہ) یہ کہنے کے بعد اُس کا دم نکل گیا ۔

(کتابُ الکبائر ، ص ۱۰۳ملخصاً)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا!اچھی صحبت اپنانے میں فائدہ ہی فائدہ ہے جبکہ  بُروں کی صحبت اختیار کرنے میں دِین و دنیا     کا سراسر نُقصان ہی نُقصان ہے کہ بُری صحبت انسان کے ایمان کو بھی برباد کرڈالتی ہے ، عموماًلوگ جان لیوا ، خوفناک اور زہریلے جانوروں ، کیڑے مکوڑوں اور وحشت ناک چیزوں سے تو ڈرتے ہیں اور ان سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اورپُر خطر (Dangerous) مقامات کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ، مگر افسوس! ہلاکت و بربادی سے بھرپور بُری صحبتوں سے پیچھا چُھڑانا انہیں انتہائی دُشوار محسوس ہوتا ہے ، آہ! بُری صحبت کی نحوست ایسی چھا  ئی  ہے کہ عبادت میں دل نہیں لگتا۔ لوگ  اپنے اکثر کاموں میں خوب غور  وفکر کرنے اور اپنا فائدہ دیکھنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے ہیں ، مگر کسی کی صحبت اختیار کرتے وقت اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں  کرتے کہ وہ ان کے حق میں فائدے مند ثابت ہوگا بھی یا نہیں۔ بہرحال کسی کو دوست بنانے سے  پہلے 112مرتبہ غور کرلینا ضروری ہے تاکہ بعد میں کسی قسم کا پچھتاوا نہ ہو ، پیارے پیارے آقا ، مکی مَدَنی