Book Name:Faizan e Rabi Ul Akhir

کیلئے بیٹھ گیا۔ اِتنے میں  ایک عجمی نوجوان آیا ، اُس کے پاس تازہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا ، اُس کو دیکھ کر میری کھانے کی خواہش ایک دَم شِدَّت اِختیارکرگئی ۔ جب وہ اپنے کھانے کے لیے لُقمہ اٹھاتا تو بھوک کی بے قراری کی وجہ سے بے اِختیارجی چاہتا کہ میں  مُنہ کھول دوں  تاکہ وہ میرے منہ میں  لُقمہ ڈال دے۔ آخِر میں  نے اپنے نفس کو ڈانٹا کہ’’بے صَبْری مت کر! اللہ کریم میرے ساتھ ہے ، چاہے موت آجائے مگر میں اُس نوجوان سے مانگ کر ہرگز نہیں  کھاؤں  گا۔ ‘‘

                             اچانک وہ نوجوان میری طرف مُتَوجِّہ ہوا اورکہنے لگا : بھائی !آجائیے!آپ بھی کھانے میں  شریک ہوجائیے!میں  نے اِنکار کیا ، اُس نے اِصرا ر کیا ، میرے نفس نے مجھے کھانے کے لئے بہت اُبھارا لیکن میں  نے پھربھی انکار ہی کیا مگر اُس نوجوان کے مسلسل اِصرار پر میں  نے تھوڑا ساکھانا کھالیا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا : آپ کہاں  کے رہنے والے ہیں ؟میں  نے کہا : جِیلان کا۔ وہ بولا : میں بھی جِیلان ہی کا ہوں۔ اچھا یہ بتائیے کہ آپ  مشہور بزرگ حضرت سیِّد ابو عبدُ اللہ صَومَعِیرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے نَوَاسے عبدُ الْقادِرکو جانتے ہیں ؟ میں  نے کہا : وہ تو میں ہی ہوں۔ یہ سُن کر وہ بے قرار ہوگیا اورکہنے لگا : میں  بغداد آنے لگاتو آپ کی والِدہ نے آپ کو دینے کے لئے  مجھے  8  سونے کی اشرفیاں دی تھیں ، میں  یہاں  بغداد آکر آپ کو تلاش کرتا رہا مگر آپ کا کسی نے پتا نہ دیا یہاں  تک کہ میری اپنی تمام رقم خرچ ہوگئی۔ 3دن تک مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا۔ جب میں  بھوک سے بے حال ہوگیا اور میری جان پربن گئی تو میں  نے آپ کی امانت میں  سے یہ روٹیاں  اوربُھنا ہوا گوشت خریدا۔ حُضور! آپ بھی خوشی سے اِسے کھالیجئے کہ یہ آپ ہی کا مال ہے۔ پہلے آپ میرے مہمان (Guest)تھے اور اب میں  آپ کا مہمان ہوں۔ بَقِیّہ رقم پیش کرتے ہوئے بولا : میں  مُعافی کا طلب گارہوں! ، میں  نے مجبوری کی حالت میں