Book Name:Tawakkul aur Qana'at

عین ہے۔ (فضائلِ دعا ، ص۲۸۷) جس کےدل میں توکُّل کانور نہیں اس کاایمان کامل نہیں اور اس کا دل اندھیر نگری کے سوا کچھ نہیں۔ توکُّل ایمان کی روح اور ایسا عمل ہےجو بندے کو اللہ  پاک کےقریب اور لوگوں سے دُور کرتا ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں میں توکُّل ہی  بندے کو اِسْتِقامت کے ساتھ ان کے مُقابلے کی قُو ّت(Power) دیتا ہے۔ مُصیبتوں میں توکُّل ہی انسان کی اُمیدیں جگانے کا باعث بنتا ہے۔

توکُّل کا معنی و مفہوم

                             تفسیر “ صِراطُ الجنان “ جلد3 صفحہ نمبر  520 پر لکھا ہے : حضرت سَیِّدُنا امام فخرُ الدِّین رازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’ توکُّل کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو بیکار اور فُضول سمجھ کرچھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکُّل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسا نہ کرے بلکہ اللہ  پاک کی مدد اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسا کرے ۔ ( تفسیر کبیر ، اٰل عمران ، تحت الآیۃ : ۱۵۹ ، ۳ / ۴۱۰)اس بات کی تائید اس حدیثِ پاک سے بھی ہوتی ہے :

                             حضرت سیّدناانس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ’’ایک شخص نے عرض کی : یا رَسُولُاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں اپنے اُونٹ کو باندھ کر توکُّل کروں یا اسے کُھلا چھوڑ کر ؟ارشاد فرمایا : ’’اسے باندھو پھر توکُّل کرو۔ (ترمذی ،  کتاب صفۃ یوم القیامۃ ، ۴ / ۲۳۲ ، الحدیث : ۲۵۲۵)یعنی توکُّل اس چیز کانام ہے کہ کسی بھی کام کے کرنے میں اسباب سنتِ مُصْطَفٰے سمجھ کر اختیار کیے جائیں اس کے بعد نتیجہ اللہ  پاک پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتے ہیں : توکُّل ترکِ اَسْباب