Book Name:Qiyamat Ki Alamaat
بَشَر نہیں بلکہ اَفْضلُ الْبَشر ہیں۔ بَشَرِیَّت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بَشَرِیَّت کو نوازا ، خود اِرشاد فرماتے ہیں : اَیُّکُمْ مِثْلِی تم میں سے کون میری مثل ہے؟۔
(بخاری ، کتاب الصوم ، باب التنکیل لمن اکثر الوصال ، ۱ / ۶۴۶ ، حدیث : ۱۹۶۵)
نورِ مُصطفٰے کی شان : حدیثِ نور کے تحت شرح زُرْقانی میں لکھا ہے : یہ جو اِرشاد فرمایا : تیرے نبی (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کا نور اپنے نورسے پیدا فرمایا۔ یہ نورِ نبی کی عظمت اور اُس کے انوکھا ہونے کا اِظہار ہے۔
(شرح زرقانی ، المقصد الاول ، ۱ / ۹۰)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پىارے پىارے اسلامى بھائىو!دوسری بات جو اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوئی وہ یہ ہےکہ حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَامجب بارگاہِ مصطفے میں حاضر ہوئے تو دوزانو ہو کر ہاتھ ران پر رکھ کر ادب کے ساتھ بیٹھ گئے ، اِس سے ہمیں بھی یہ درْس ملتا ہے کہ جب کسی بڑے کی بارگاہ میں جائیں ، چاہے وہ اُستاد(Teachers) ، عالِمِ دین ، مفتی ، پیر و مرشِد یا والد صاحب ہوں تو ہمیں بھی ادب و تعظیم کے ساتھ بیٹھنا چاہیے ، افسوس! آج کی نئی نسل اِس طرح کے آداب سے بہت دور ہوتی جارہی ہے ، بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے؟ ، بڑوں کے سامنے اُٹھنے بیٹھنے میں کن آداب کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے؟ ، کون سی بات بڑوں کے سامنے خلافِ ادب ہے؟ ، وغیرہ باتوں سے آج کی نئی نسل ہی کیا بڑے بھی دُور دکھائی دیتے ہیں۔ والِدین کو چاہیے کہ اولادکو بچپن ہی سے بڑوں کاادب و احترام کرنا سکھائیں۔
یاد رہے! والِدین پراولاد کے جو حقوق ہیں ، اُن میں سے ایک یہ بھی ہےکہاولاد کی اچھی تربیت