Book Name:Achi Aur Buri Lalach

ارشاد  اِلٰہی ہے :

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠(۱۰۰)

 ۱۵ ، بنی اسرائیل : ۱۰۰)

ترجمۂکنزالایمان : تم فرماؤاگرتم لوگ میرے رب کی رحمت کےخزانوں کے مالک ہوتے توانہیں بھی روک رکھتےاس ڈر سےکہ خرچ نہ ہوجائیں اور آدمی بڑاکنجوس ہے ۔

قرآنِ کریم کی تفسیروں میں سے ایک مشہورتفسیر “ تفسیر ِکبیر “ میں ہے کہ یہاں  انسان کو اس کی اصل کے اعتبار سے بڑ اکنجوس فرمایا گیا ہے کیونکہ انسان کو محتاج پیدا کیاگیا اورمحتاج انسان لازمی طورپر اسی چیزکو پسند کرتاہے اوراپنی ذات کےلیے روک لیتا ہےجس سے محتاجی دور ہوجائے ۔ جبکہ انسان کی سخاوت خارجی اَسبا ب کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے اپنی تعریف پسند ہونایا ثواب ملنے کی امید ہونا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے بخیل ہے۔ ([1])

اوریہ آیت ابنِ آدم کےانتہائی لالچی اوربخیل ہونےپردلیل ہے ، ابن ِآدم اس پرندےسےبھی زِیادَہ  بخیل اور لالچی ہےجوساحلِ سمندرپراس خوف سےپیاسا مر جاتاہے کہ کہیں پانی پینے سے پانی خَتْم  نہ ہو جائے اور اس کیڑے سے بھی زِیادَہ  بخیل اور لالچی ہے جس کی خوراک مٹی ہے لیکن وہ اس خوف سے بھوکا مر جاتا ہے کہ کہیں کھانے سے مٹی ختم نہ ہو جائے ۔ ([2])


 

 



[1]    تفسیر کبیر ، الاسراء ، تحت الآیۃ : ۱۰۰ ،  ۷ / ۴۱۲

[2]    مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق ، الفصل الاول ، ۹ / ۱۲۴ ، تحت الحدیث : ۵۲۷۳