Book Name:Khuwaja Ghareeb Nawaz

      پىارے پىارے اسلامى بھائىو! وَلِیُّ اللّٰہ وہ ہے جو فرائض سے قُربِ اِلٰہی حاصل کرے اور اِطاعتِ اِلٰہی میں مشغول رہے اور اس کا دِل نورِ جلالِ اِلٰہی کی معرفت میں ڈُوباہواہو۔ جب دیکھے دلائلِ قُدرتِ اِلٰہی کو دیکھے اور جب سُنے تو اللہپاک کی آیتیں ہی سُنے اور جب بولے تو اپنے ربّ کریم کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے طاعتِ اِلٰہی میں کرے اور جب کوشش کرے اسی اَمر میں کوشش کرے جو ذریعۂ قُربِ اِلٰہی ہو ، اللہ پاک کے ذِکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خُدا کے سِوا غیر کو  نہ دیکھے ، یہ صفت اَولیا  کی ہے ۔ بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ پاک اس کا ولی و ناصِر   اور مُعین و مددگار ہوتا ہے۔  (تفسیرِخازن ، پ۱۱ ، یونس  ، تحت الآية۶۲ ، ۲ / ۳۲۲)وَلِیُّ اللّٰہ کی پہچان حقیقۃً بَہُت  مُشکِل ہے جیسا کہ

       مُفسِّرِ قرآن ، مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : حقیقت یہ ہے کہ وَلِیُّ اللّٰہ کی پہچان بَہُت مُشکِل ہے۔ حضرت بایزیدبِسْطامی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اَولیاء ُاللہ رَحْمتِ الٰہی کی دُلْہَنْ ہیں ، جہاں تک سوائے اس کے مَحْرَم کے کسی کی رسائی نہیں۔ ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : خُدا کی پہچان آسان ہے ، مگر ولی کی پہچان مشکل کیونکہ ربّ کریم اپنی ذات و صفات میں مخلوق سے اعلیٰ وبالا ہے اور ہر مخلوق اس پر گواہ مگر  ولی شکل و صورت ، اَعمال وافعال میں بالکل ہماری طرح۔

( روح البيان  ، پ۱۱ ،  یونس  ،  تحت الآية  ۶۳ ،  ۴ / ۶۰)

پیارے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے ! ولی ہونے کے لیے تشہیر و اِشتہار ، نُمایاں جُبّہ و دستار اور عقید تمندوں کی لمبی قِطا رہونا ضَروری نہیں جس سے ان کی وِلایت کی معرفت اور شہرت ہو بلکہ عام بندوں میں بھی وَلِیُّ اللہ ہوتے ہیں ، لہٰذا ہمیں ہر نیک بندے کا ادب واحترام کرنا چاہیے کہ نہ جانے  کون گُدڑی کا لعل(یعنی چُھپاولی)ہو  البتہ ان کی کچھ نشانیاں ہیں :

اولیاء اللہ کی نشانیاں

      قرآن وحدیث میں ان اولیائے کرام کی مختلف علامتیں ارشاد ہوئی ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اَولیاءُ اللہ وہ ہیں جن کو دیکھنے سے اللہ پاک یاد آجائے ،  اسی طرح اَولیاءُ اللہ وہ ہیں جو  ایمان و تقویٰ دونوں کے جامع ہوں ۔ یقیناً ایمان اور تقویٰ دو  ایسی صفات ہیں جو ہر وَلِیُّ اللہ کے لیے شرائط کی حیثیت رکھتی ہیں ، لہٰذاکوئی بے دِین یا فاسق وفاجرشخص وَلِیُّ اللہ نہیں ہوسکتا۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے نام کے پیر  بھی پائے جاتے ہیں  جو عورتوں  کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھ کر بیعت کرواتے ہیں اور اپنا مرید بناتے ہیں  اور لوگ ان کو اللہ  کا ولی سمجھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ ولایت نہیں جہالت ہے ، آئیے عورتوں سے بیعت لینے کی کیفیت اور اس کا شرعی  حکم سنتے ہیں :

عورتوں  سے بیعت  کی کیفیت

                                                تفسیرصراطُ الجنان میں ہےکہ عورتوں  سے لی جانے والی بیعت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے مصافحہ نہ فرمایا اورعورتوں  کواپنا دستِ مبارک چھُونے نہ دیا۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فرماتی ہیں :  اللّٰہ کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کومَس نہیں  کیا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کوصرف اپنے