Book Name:Khof e Khuda Main Rone Ki Ahamiyat
خوف زدہ رہنے کا نام “ خوفِ خدا “ ہے۔ قرآنِ کریم میںاللہ کریم نے مومنین کو کئی مقامات پر اس پاکیزہ خوبی کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ، چنانچہ
پارہ5سُوْرَۃُ النسآءکی آیت نمبر 131میں ارشاد ہوتا ہے :
وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَؕ- (پ۵ ، النساء : ۱۳۱ )
تَرْجَمَۂ کنز العرفان : اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی تاکید فرمادی ہے کہاللہ سے ڈرتے رہو
اسی طرح پارہ 22سورۃُ الاَحزاب کی آیت نمبر70 میں ارشادِ باری ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) ( پ۲۲ ، الا حزاب : ۷۰)
تَرْجَمَۂ کنز العرفان : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو ۔
پارہ 4 سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 175 میں اِرشاد ہوتا ہے :
وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵) (پ۴ ، آلِ عمران : ۱۷۵)
تَرجَمَۂ کنزُ العرفان : اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔
پىارے پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا!ایمان کے تقاضوں میں سےا یک تقاضا خوفِ خدا بھی ہے۔ یقیناً فکرِ آخرت سے بےقرار رہنا ، عذابِ دوزخ سے رونا اور خوفِ خدا میں ڈُوبے رہنا بہت بڑی نعمت ہے۔ افسوس!آج دنیا کےغم میں توآنسو بہائے جاتے ہیں ، مگر فکرِ آخرت میں رونے کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ غور تو کیجئے! اس دنیا کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اس کے لیے آنسو بہائے جائیں۔ یہ دنیا تو ایک مسافرخانے کی طرح ہے ، جس میں مسافر آ کر ٹھہرتے ہیں اور چند دن رہنے کے بعد رُخصت ہوجاتے ہیں ، مسافر خانے میں چند دن رہنے والا کبھی بھی وہاں لمبی لمبی اُمیدیں نہیں باندھتا۔ مسافر خانے میں چند دن رہنے والا کبھی بھی وہاں کی رونقوں سے دل نہیں لگاتا۔ لہٰذا ہمیں بھی دنیا کی فکر نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اس کےلیے آنسو بہانے چاہئیں۔ بلکہ *آنسو بہانے ہوں تو خوفِ خدا میں بہائیے*عشقِ رسول میں بہائیے ، * فکرِ آخرت میں بہائیے ، * گناہوں کی کثرت پر بہائیے ، * نیکیاں نہ کر سکنے پر بہائیے ، * موت کی سختیوں کو یاد کرکے بہائیے ، *غمِ مدینہ میں بہائیے ، *اللہ پاک کی خُفیہ تدبیر کے خوف سے بہائیے ، * قبر کو یاد کر کے بہائیے ، * قبر کی گھبراہٹ کا سوچ کر بہائیے ، * قبر کے اندھیرے کو یاد کر کے بہائیے ، * قبر کی تنگی کو یاد کر کے بہائیے ،