Book Name:Ambiya-e-Kiram Ki Naiki Ki Dawat
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد
اے عاشقانِ اولیا!ذرا سوچئے!اگر تگودار کے کڑوے جملے پروہ بُزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ غصّے میں آجاتے تو ہر گز یہ مَدَنی نتائج برآمدنہ ہوتے۔لہٰذا کوئی کتنا ہی غصّہ دلائے،ہمیں اپنی زَبان کو قابو میں ہی رکھنا چاہیے کہ زبان جب بے قابو ہوجاتی ہے تو بعض اوقات بنے بنائے کھیل بھی بگاڑ کررکھ دیتی ہے۔
ایک مدنی پھول اس حکایت سے یہ بھی ملا کہ نیکی کی دعوت دیتے ہوئے بسا اوقات غیر مناسب لہجوں،کڑوے جملوں اور نیکی کی دعوت قبول کرنےسے منہ موڑنے والے لوگوں سےبھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے،دل بڑا کرنا چاہیے، ہمت اور حوصلے سے کام لینا چاہیے اور اس عظیم کام کی اَہَمِّیَّت کو سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ نیکی کی دعوت دینے پر ہی توجہ رکھنی چاہیے۔یادرکھئے! نیکی کی دعوت دینا ایسا بہترین کام ہے جس میں ناکامی تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ اچّھی نِیَّت کی صورت میں نیکی کی دعوت دینے والا آخِرت کے ثواب کا حق دار توہو ہی جاتا ہے،جیسا کہ
مُبَلِّغ کو کیسا ہونا چاہئے؟؟؟
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نَقل فرماتے ہیں:کسی بُزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:”نیکی کی دعوت“دینے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو صَبْر کا عادی بنائے اور اللہ پاک کی طرف سے نیکی کی دعوت کے ملنے والے ثواب پر یقین رکھے۔جس کو ثواب کا مکمل یقین ہو، اُس کو اِس مبارَک کام میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔(اِحیاءُ العُلوم، ۲/۴۱۰)لوگوں کی طرف سے تکلیف دئیے جانے کی وجہ سےنیکی کی دعوت عام کرنے سے رکنا نہیں چاہیے کہ حضرت