Book Name:Faizan Rabi-ul-Akhir

جانتے ہیں ؟ میں  نے کہا: وہ تو میں ہی ہوں۔یہ سُن کر وہ بے قرار ہوگیا اورکہنے لگا:میں  بغداد آنے لگاتو آپ کی امّی جان نے آپ کو دینے کے لئے مجھے 8 سونے کی اشرفیاں دی تھیں،میں  یہاں  بغداد آکر آپ کو تلاش کرتا رہا مگر آپ کا کسی نے پتا نہ دیا یہاں  تک کہ میری اپنی تمام رقم خرچ ہوگئی، تین دن تک مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا، میں  جب بھوک سے نِڈھال ہوگیا اور میری جان پربن گئی تو میں  نے آپ کی امانت میں  سے یہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت خریدا۔ حُضُور! آپ بھی خوشی سے اِسے تناوُل فرمائیے کہ یہ آپ ہی کا مال ہے،پہلے آپ میرے مہمان (Guest)تھے اوراب میں  آپ کا مہمان ہوں،بَقِیّہ رقم پیش کرتے ہوئے بولا: میں  مُعافی کا طلب گارہوں ، میں  نے مجبوری کی حالت میں  آپ کی رقم ہی سے کھانا خریدا تھا۔ میں  بَہُت خوش ہوا۔ میں  نے بچا ہوا کھانا اورمزید کچھ رقم اُس کو پیش کی ،اس نے قَبول کی اور چلا گیا۔(الذیل علی طبقات الحنابلۃ ۳/۲۵۰)

طلب  کا منہ تو کس قابِل ہے یاغوث

مگر  تیرا  کرم   کامِل   ہے  یاغوث

(حدائقِ بخشش ،ص۲۶۱)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

       پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ابھی جو ہم نے حکایت سُنی،یہ حکایت امیرِاَہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادریدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کے رسالے”سانپ نُما جِنّ“کے صفحہ نمبر11سے بیان کی گئی ہے۔اس رسالے میں امیرِ اہلسنت نے  غوثِ پاک کی سیرت سے متعلق مزید ایمان افروز  حکایات نقل فرمائی ہیں،لہٰذا آج ہی اس رسالے کو مکتبۃُ المدینہ کے بستے سے ہدیۃ طلب