Book Name:Jald Bazi Kay Nuqsanat

(وسائلِ بخشش مُرمَّم ، ص۲۱۰)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سے4نکات حاصل ہوئے : (1) پہلا نکتہ یہ کہ پہلے کے لوگ سلام  جیسی پیاری پیاری سُنّت پر عمل کرنے والے ہوتے تھے ، خواہ کتنی ہی بار ملاقات کرنی ہوتی مگر وہ سلام ضرورکرتے تھے۔ افسوس!آ ج کل دیگر سُنّتوں کی طرح یہ سُنّت بھی ختم ہو تی نظر آرہی ہے ۔ لوگ جب آپس میں ملتے ہیں تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ سے ابتدا کرنے کی بجائے”آداب عرض“کیا حال ہے ؟”مزاج شریف“”صبح بخیر“ ، ” شام بخیر“وغیرہ وغیرہ عجیب و غریب کلمات سے ابتدا کرتے ہیں ، یونہی بعض لوگ ہاتھ کے اشاروں اور کلائیوں سے سلام کرتے اور اسی طرح سلام کا جواب دینے میں سُستی کی جاتی ہے ، یہ سب خلافِ سُنّت ہے۔ بعض لوگوں کی بےباکی کا یہ عالَم ہے کہ وہ ملاقات کے وَقْت سلام کرنے کی بجائے مَعاذاللہ گالی سے کلام کا آغاز کرتے ہیں ، جیسا کہ اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا سلام کی جگہ (لوگوں کو)گالی بکتے ہوئے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص۴۵۰)اے کاش!ہر مسلمان سلام کی اہمیت کو سمجھ جائے اور ایک بار پھر یہ سُنّت عام  ہوجائے۔ سلام کی عظیم سُنّت سے متعلق مزید معلومات کے لئے امیر اہلسنت کا رسالہ101مدنی پھول اور مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سُنّتیں اور آداب“کا مطالعہ فرمائیے۔

(2)دوسرا نکتہ یہ ملا کہ اگر کوئی ہمیں ہمارے عیبوں سے آگاہ کرے ، ہماری کوئی کمزوری بیان کرے ، ہماری اصلاح کرے تو ہمیں غصّے میں آنے اور اپنی ضد پر اَڑجانےکی بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ، افسوس!حالات بہت زیادہ نازک ہوتے جارہے ہیں ، اگر کوئی کسی کو اس کے عیب