Book Name:Isteqbal-e-Mah-e-Ramzan

روزہ چھوڑد یا۔ ٭ہلکی سی حرارت ہے تو روزہ چھوڑ دیا۔ ٭طبیعت میں گرانی ہے تو روزہ چھوڑدیا۔ ٭ کام زیادہ کرنا ہے تو روزہ چھوڑ دیا۔ ٭اوورٹائم لگانا ہےتو روزہ چھوڑ دیا۔  ٭ ذرا سا سفر کرنا ہے تو روزہ چھوڑ دیا۔

یقیناً بیماری و سفر اور اس طرح کی بعض مخصوص صورتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن اس کا فیصلہ ہر ایک نہیں کرسکتا بلکہ کسی ماہر مفتی صاحب سے اپنے محارم کے ذریعے شرعی رہنمائی لے کر ہی روزہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے مگراپنےگناہگار دل کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے روزے چھوڑ دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اللہ  پاک کے نیک بندے ماہِ رمضان کےاس قدر شیدائی ہوتےکہ کم عمری میں بھی سخت گرمی میں بھوک پیاس برداشت کرکے روزہ رکھ لیتے اور پھر اسے پورا کرنے کا بھی اہتمام  فرماتے۔ آئیے! اسی ضِمْن میں ایک ایمان افروز  واقعہ سنئے اوراپنے اندر روزہ رکھنے کی حرص پیدا  کیجئے۔چنانچہ

اعلیٰ حضرت کی روزہ کشائی

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنت مولاناامام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی روزہ کشائی کی تقریب کا حال بیان کرتے ہوئے مولانا سید ایوب علی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہفرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کامقدس مہینا ہے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکے پہلےروزہ کشائی کی تقریب ہے ،کاشانَۂ اَقدس میں جہاں اِفطار کا اور بہت قسم کا سامان ہے۔ ایک محفوظ کمرے میں فیرینی(ایک قسم کی کھیر جو دودھ،چینی اور چاولوں کےآٹے سے بنتی ہے) کےپیالےبھی جمانے کیلئےچُنے ہوئےتھے۔آفتاب نصف النہارپرہے،ٹھیک شدت کی گرمی کا وقت ہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے والدِ ماجد(رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) آپ کو اسی کمرےمیں لے جاتے ہیں اور دروازہ بندکرکےفیرنی (کھیرکا) ایک پیالہ اُٹھا کر دیتے ہیں کہ  اِسے کھا لو۔آپ عرض کرتے ہیں:میرا توروزہ ہے کیسے کھاؤں؟اِرْشاد ہوتا ہے:بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے،لو کھالو،میں نے دروازہ بند کردیا ہے،کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔آپ عرض کرتے ہیں:جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے ،وہ تو دیکھ رہا ہے۔یہ سنتے