Book Name:Dil Joii Kay Fazail

حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ   کتنے عمدہ اخلاق والے تھے، باوجود بلند مرتبہ ہونے کے ان مسکینوں  اور غریبوں کی دلجوئی کی خاطر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور بدلے میں انہیں بھی اپنے گھر دعوت پر بُلایا۔اس واقعے سے یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی صرف امیروں کے ساتھ نہیں بلکہ فقیروں کے ساتھ بھی پیاراور اُلفت و محبت بھرا برتاؤ (Behave)کرنا چاہیے۔

حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ  جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں ، حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ بلند مرتبہ صحابی ہیں، حضرت امام حسن مُجتبیٰرَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ  اہلِ بیتِ مصطفےٰ میں شامل ہیں ،حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کے شہزادے ہیں، حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا  کے جگر کے ٹکڑے ہیں، حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کا مقام یہ ہے کہ وہ دونوں جہاں کے مالک و مختار، مکی مدنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نواسے ہیں، مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے ان غریب اور مسکین لوگوں کی دعوت رد نہیں فرمائی  جبکہ آج ہمارے معاشرے میں صورتِ حال کتنی عجیب ہوتی جارہی ہے۔آج اگر کسی کم ظرف(کم حوصلے والے) کو کوئی دنیاوی منصب مل جائے تو اس کا مزاج آسمان پر چلا جاتا ہے، اس حقیر دنیا کاعارضی عہدہ ملنے کے بعد بعض لوگوں کے زمین پر پاؤں نہیں جمتے،  کپڑوں کے ساتھ بعض کی گردنیں بھی اکڑ جاتی ہیں۔ایسے میں اپنے ساتھ رہنے والوں کویوں بھُلا دیا جاتا ہے جیسے ان کے ساتھ کبھی تعلق رہا ہی نہ ہو،اپنے عزیزوں کو یوں نظرانداز(Ignore)کر دیا جاتا ہے جیسے ان سے کبھی جان پہچان ہی نہ رہی ہو، اپنے دوستوں سے  ایسا رویہ رکھا جاتا ہے جیسے ملازم ہوں، صد افسوس! کہ بعض نادان تو اپنے محسنوں(احسان کرنے والوں) کو بھی آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ کہیں عہدہ ملنے کے بعد تکبر کی  سیڑھی جہنم میں نہ گِرا دے۔امیرِ اہل سنّت،بانیِ دعوتِ اِسلامی