Book Name:Dil Joii Kay Fazail

(وسائل بخشش مُرمّم،ص۱۷۸)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

پىارے پىارے اسلامى بھائىو!ہم دِلجوئی کے واقعات سُن  رہے تھے۔ ان کے واقعات  کوسُن کر یوں لگتا ہے کہ وہ دوسروں کی دل جوئی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔

چنانچہ غزالیِ زماں، رازیِ دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی دل جوئی کے عادی  تھے، آپ زبردست عالمِ دین اور اللہ کے ولی تھے، آپ صحیح معنوں میں اخلاقِ نبوی کا عملی نمونہ تھے، غریب پروری، رحمدلی،  ہمدردی، خیرخواہی اور  مہربانی سمیت کئی عمدہ اوصاف میں اپنی مثال آپ تھے۔

دل جوئی کا حَسِین انداز!

منقول ہے کہ ایک بار ایک صاحب نے اپنے بھانجے کی شادی میں کاظمی شاہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو مدعو (Invite)کیا اور نکاح پڑھانے کی درخواست کی۔ آپ نے منظور فرمالی۔ نکاح کے لیے عصر اور مغرب کا درمیانی وقت طے کیا گیا۔ بارات آنے میں کچھ دیر ہو گئی، وہ صاحب مغرب کے بعد آپ کو لینے پہنچے تو آپ نے فرمایا: حاجی صاحب! آپ نے تو عصر کے بعد نکاح کا فرمایا تھا،اب تو مغرب بھی ہوچکی ؟ اب میرے پوتے کا عقیقہ ہے اور مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان صاحب کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: عالی جاہ! کچھ دیر ہو گئی ہے۔(آپ کرم فرمائیں!) آپ نے فرمایا: اچھا چلو، ابھی آپ نے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے تھے، صاحبزادوں نے عرض کی: ابا جان!کپڑے تبدیل فرمالیں، آپ نے