Book Name:Dil Joii Kay Fazail
دوسروں کی کیسی دل جوئی فرماتے تھے،اتنے عظیم مقام و مرتبے پرفائز ہونے کےبا وجود بھی اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ دوسروں کی خیر خواہی کرتے تھے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے بھی درس ہے کہ اگر ہمارا کوئی مسلمان بھائی کسی تکلیف میں ہو یا کسی بھی معاملے میں اسے ہماری ضرورت ہو اور ہم اس کی پریشانی دور کرنےکی قدرت رکھتے ہوں تو ہمیں بھی حضرت سَیِّدُنافاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی سیرت پرعمل کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کی دل جوئی کرنی چاہیے۔ ہمیں بھی حضرت سَیِّدُنافاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے کردار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسروں کی خیر خواہی کرنی چاہیے۔ آئیے! دل جوئی کی رغبت پانے کےلیے مزید ایک واقعہ سنتے ہیں:
(2)امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور مسکینوں کی دلجوئی
ایک مرتبہ حضرتِ سیّدُنا امامِ حَسَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کچھ ایسےمَساکین کےپاس سےگُزرےجوراستے میں بیٹھے لوگوں سےسُوال کر رہےتھےاورزمین پر بِکھرے ہوئے روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے کھارہے تھے، آپ نےاُنہیں سَلام کیا، اُنھوں نےسلام کاجواب دینےکےبعدعرض کی:اےنواسۂ رسول! ہمارے ساتھ کھاناتناول فرمائیے!جب اُنہوں نےکھانےکی دعوت دی توآپ نےفرمایا:اللہ بَڑائی چاہنےوالوں کوپسندنہیں فرماتا،پھرآپ نےاُن کے ساتھ کچھ تناول فرمایا۔ جاتے ہوئے اُنہیں سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمھاری دَعوت قَبُول کی ،تم بھی میری دعوت قَبُول کرو۔ اُنھوں نے عرض کی: حُضُور!جیسےآپ فرمائیں،آپ نےاُنہیں اپنےپاس آنےکی دعوت دی ، جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے اُنہیں عُمدہ کھانا کھلایا اور خود بھی اُن کے ساتھ کھاناتناول فرمایا۔ (احیاء العلوم،۲/۴۵،بتغیر)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
اے عاشقانِ صحابہ و اہل بىت!غور کیجئے! نواسَۂ رسول، جگر گوشَۂ بتول حضرت امام