Book Name:Safr-e-Miraaj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa

پڑی ہوئی تھی([1])اور اس کی رفتار کا عالَم یہ تھا کہ جہاں تک نظر پہنچتی وہاں اپنا قدم رکھتا،([2]) بلندی پر چڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ چھوٹے اور پاؤں لمبے ہو جاتے اور نیچے اترتے ہوئے ہاتھ لمبے اور پاؤں چھوٹے ہو جاتے جس کی وجہ سے دونوں صورتوں میں اس کی پیٹھ برابر رہتی([3]) اور سوار کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ ہوتا۔([4])

نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب اُس پر سوار ہونے کا ارادہ فرمایا اور اُس کے قریب تشریف لائے تو اُس نے خُوشی سے پُھولے نہ سَماتے ہوئے اُچھل کود شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت جبرائیل عَلَیہِ السّلام نے اپنا ہاتھ اس کی گردن کے بالوں کی جگہ پر رکھا اور فرمایا: اے بُراق! تجھے حَیَا نہیں آتی؟ خُدائے پاک کی قسم!حُضُور انور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ عزت وکرامت والی کوئی ہستی تجھ پر سوار نہیں ہوئی۔ یہ سن کر بُراق حَیَا کے مارے پسینے پسینے ہو گیا اور اُچھل کود ختم کر کے پُرسُکون ہو گیا۔([5])

بَیْتِ الْمَقْدِس کی طرف روانگی

پھر رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بُراق پر سوار ہوئے اور اس شان سے بَیْتُ الْمَقْدِس کی طرف روانہ ہوئے جیسا کہ حضرت سیِّدُنا علّامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:

سَرَیْتَ مِنْ حَرَمٍ لَیْلًا اِلٰی حَرَمٍ


 

 



([1])   ترمذى، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بنى اسرائيل، ص۷۲۳، الحديث:۳۱۳۱

([2])   بخارى،كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ص۹۷۶،حديث:۳۸۸۷

([3])   معجم اوسط،۳/۶۵،حديث:۳۸۷۹ ملخصًا

([4])   شرح زرقانى،المقصد الخامس فى تخصيصه   الخ، ۸/۷۵

([5])   سيرة نبوية لابن هشام، ذكر الاسراء والمعراج، المجلد الاول، ۲/۳۵

ترمذى، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بنى اسرائيل، ص۷۲۳، حديث:۳۱۳۱