Book Name:Imam e Azam Ki Zahana

سراج تُو ہے بغیر تیرے جو کوئی سمجھے حدیث و قرآں

پھرے بھٹکتا نہ پائے رَستہ امامِ اعظم ابوحنیفہ

(دیوانِ سالک از رسائلِ نعیمیہ، ص۳۶)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

      اے عاشقانِ رسول اسلامی بہنو!بیان کردہ دونوں واقعات سے جہاں امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی ذہانت ثابت ہوتی ہے وہیں آخری حکایت سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بندہ عبادت کے قریب نہ جائے اور اگر کوئی کسی طرح عبادت میں مشغول ہو بھی جائے تو اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کر کے عبادت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حکایت سے ہمیں بھی یہ سبق مل رہا ہے کہ اگروسوسے آئیں، عبادت میں رغبت حاصل نہ ہو، خشو ع و خضوع نصیب نہ ہو، طرح طرح کے خیالات ستائیں تب بھی عبادت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے بلکہ دل پر جبر کرتے ہوئے نفس و شیطان سے لڑتے ہوئے خود کو عبادت میں ہی مشغول رکھنا چاہیے۔ یاد رکھئے! عبادت ہی مقصودِ انسانی ہے، عبادت ہی روح کی غذا ہے، عبادت ہی قلب کو جِلا بخشنے کا سبب ہے، عبادت ہی جنت میں لے جانے والی راہ ہے۔  لیکن جس طرح بیماری کے بعد انسان کے منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے اور اسے میٹھی اور لذیذ غذائیں بھی کڑوی (Bitter) لگتی ہیں اسی طرح گناہوں کی کثرت  اور غفلت میں زندگی گزارنے کی وجہ سے عبادت میں بھی دل نہیں لگ رہا ہوتا لیکن جس طرح رفتہ رفتہ منہ کا تلخ ذائقہ ٹھیک ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح باتکلف کی جانے والی عبادت بھی آہستہ آہستہ انسان کے ظاہر و باطن کے قرار کا سبب بنتی چلی جاتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ عبادت کے بغیر بندے کا دل نہیں