Book Name:Hmesha Sach Bolye

فرضی حکایت سنتی ہیں:

دو بوڑھی پڑوسنوں کی کہانی

دو بوڑھی عورتیں آپس میں پڑوسن (Neighbour)تھیں، ایک زبان کی بڑی اچھی تھی جبکہ دوسری بڑی بدزبان تھی۔ وہ بڑھیا جو زبان کی  بڑی اچھی تھی ایک دن جنگل میں  ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی ۔ اتفاق سے گرمی، سردی اور برسات کے موسموں میں جھگڑا ہو گیا، سردی کہتی تھی کہ میں سب موسموں میں اچھی ہوں، گرمی کا دعویٰ تھا کہ تمام موسموں میں میرا کوئی جواب نہیں، جبکہ برسات کے موسم کا کہنا تھا کہ مجھ سے اچھا کوئی اور موسم نہیں ہے۔ آپس میں انہوں نے طے کیا  کہ کسی انسان سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ یہ تینوں اس جنگل میں چلے تو سامنے وہی بڑھیا بیٹھی نظر آئی، تینوں نے اتفاق کر لیا کہ اسی سے پوچھ لیتے ہیں۔  سب سے پہلے موسم سرما اس بوڑھیا کے پاس آیا اور کہنے لگا: بڑی بی یہ بتاؤ کہ موسمِ سرما کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا کہنے لگی: موسمِ سرما کا کیا کہنا، جب آتا ہے تو ہر طرف رونق آجاتی ہے، کہیں برف کی سفید چادریں چھا جاتی ہیں،گھروں میں انگیٹھیاں (Stoves) سُلگنے لگتی ہیں، گرما گرم چائے اور کافی سے شوق ہوتا ہے، طرح طرح کے میوے لائے جاتے ہیں، اخروٹ اور مونگ پھلیاں منگوائی جاتی ہیں، سب مزے لے  لے کر کھاتے ہیں، اَلْغَرَض! سردی کے کیا کہنے!!  موسمِ سرما یہ سن کر بڑا خوش ہوا اور بڑی بی کو انعام میں ایک ہزار اشرفی کی تھیلی دی۔  پھر موسمِ گرما بڑھیا کے پاس آیا، کہنے لگا: بڑی بی!یہ بتائیے کہ گرمی کا موسم کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا کہنے لگی: بیٹا! گرمی کی کیا شان ہے،جب آتی ہے گھروں  میں پنکھے جھلے جاتے ہیں، برف کی قلفیاں کھائی جاتی ہیں، ٹھنڈے دودھ اور شربتوں سے تواضع ہوتی ہے، فصلیں پکنے لگتی ہیں، شام میں لوگ ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں ، صحن میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، پلنگ لگائے جاتے ہیں۔