Book Name:Hmesha Sach Bolye

غصے میں بڑھیا کو لقوے کا تحفہ دے کر چلا جاتا ہے، پھر گرمی آتی ہے کہتی ہے : بڑھیا یہ بتاؤ کہ گرمی کا موسم کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا جَل بُھن کر کہتی ہے: گرمی کا کیا کہنا، آتی ہے تو پسینہ بہتا ہے، کپڑوں سے بو آنے لگتی ہے، صبح کو تبدیل کریں شام تک پھر میلے جاتے ہیں، صبح سے ہی لُو چلنے لگتی ہے، یہی شور اٹھتا ہے: اِس کو لو لگی ، اُس کو لو لگی، کسی کو ہیضہ ہوتا ہے تو کوئی دھوپ میں جھلس جاتا ہے، پانی پیتے پیتے تھک جائیں مگر گرمی کہیں نہ جائے۔ گرمی ناراض ہو کر جاتے ہوئے ایسی پھونک مارتی ہے کہ بڑھیا کو لُو لگ جاتی ہے۔ اب برسات کا موسم آتا ہے، کہتا ہے بوڑھی اماں! یہ بتانا بارش کا موسم کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا کہتی ہے: برسات سے خدا بچائے، بچلی چمکتی ہے، بادل گرجتے ہیں تو کلیجہ دہل جاتا ہے، بارش کا شور سکون غارت کئے دیتا ہے، پاؤں باہر رکھو تو کپڑوں سمیت بھیگ جاتے ہیں، ہر طرف کیچڑ ہو جاتا ہے ، رات میں مچھر ستاتے ہیں، مینڈکوں کا شور سونے نہیں دیتا، یوں نہ رات کو سکون ملتا ہے نہ دن کو آرام۔ ایسا ہوتا ہے موسمِ سرما۔ یہ سنتے ہی برسات کی نگاہ بجلی بن کر بڑھیا کے پاؤں پر گرتی ہے اور بڑھیا لنگڑی ہو جاتی ہے۔

یوں ایک بڑھیا زبان کے اچھے استعمال پر کئی فائدے کماتی ہے جبکہ دوسری بڑھیا زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے بیٹھے بٹھائے نقصان میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ زبان کا اچھا استعمال کئی فوائد کا حق دار بنا دیتا ہے، جبکہ زبان کا برا استعمال کئی فوائد سے محروم بھی کر دیتا ہے اور کئی نقصانات سے بھی دوچار کر دیتا ہے۔لہٰذا زبان کے اچھے استعمال کی عادت بنانی چاہیے۔

زبان کے اچھے اور صحیح استعمال کی ایک صورت سچ بولنا ہے جبکہ اسی زبان کے غلط استعمال کی ایک صورت جھوٹ بولنا ہے۔ سچ کی بےشمار برکتیں ہیں، ہمیشہ سچ بولنے والا آدمی (Honest man)دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے  جبکہ جھوٹ کی کئی خرابیاں ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جھوٹا انسان دنیا میں بھی