Book Name:Hmesha Sach Bolye

  اَلْغَرَض! گرمی کا کیا کہنا!! گرمی بھی اپنی تعریفیں سن کر خوش ہوئی اور ایک ہزار اشرفی کی تھیلی انعام دی۔ پھر برسات کا موسم  آتا ہے، حال چال پوچھ کر کہنے لگا: بوڑھی اماں! یہ بتائیے کہ برسات کا موسم کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا کہنے لگی: موسم برسات کی تو کیا ہی بات ہے، یہ نہ ہو تو لوگ جئیں گے کیسے، مینہ برستا ہے گویا رحمتِ الٰہی چھما چھم برستی ہے، زمین کی پیاس (Thirst)بجھتی ہے، درخت اور عمارتیں غسل کر کے صاف ہوجاتی ہیں ، ندیاں نالے بھر جاتے ہیں، فائدہ اٹھانے والے ان سے فائدے اٹھاتے ہیں، اَلْغَرَض! برسات کا کیا کہنا۔ برسات کا موسم اپنی تعریفیں سن کر پھولے نہیں  سماتا، وہ بھی بڑھیا کو ایک ہزار اشرفیاں دیتا ہے۔ بڑھیا تین ہزار اشرفیاں لے کر گھر آتی ہے تو روپوں کی وجہ سے گویا گھر میں بہار آجاتی ہے ، پڑوسن بڑھیا گھر میں چہل پہل دیکھ کر پوچھتی ہے: یہ روپیہ کہاں سے لائیں؟ کہا: سرما، گرما اور برسات کے موسم نے دیئے ہیں۔

پڑوسن بڑھیا ایک دن گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر جنگل میں جا بیٹھی۔ اتفاق سے گرمی، سردی اور برسات کا موسم پھر ملے، سردی کہنے لگی: اس بڑھیا نے کس کو سب سے اچھا کہا؟  گرمی نے کہا: بھئی! وہ بڑھیا بڑی چالاک (Cunning)تھی، یہ نہیں بتایا کہ کون اچھا ہے سب کی تعریفیں کر کے مفت میں تین ہزار اشرفیاں مار لیں۔ غرض پھر طے ہوا کہ کسی سے فیصلہ کرواتے ہیں، دیکھا تو ایک اور بڑھیا بیٹھی ہوئی ملی، اس سے فیصلہ کروانے کے لیے پہلے موسمِ سرما اس کے پاس آیااور اپنے بارے میں پوچھا: بڑھیا جھٹ سے بولتی ہے: سردی آتی ہے تو سخت پریشان کرتی ہے،  کسی کو فالج ہوتا ہے تو کوئی لقوے میں مبتلا ہوتا ہے، نزلہ اور زکام عام ہو جاتا ہے، دانت کڑ کڑ بجتے ہیں، وضو کرنا دشوار ہو جاتا ہے، لحاف ذرا کھلتا ہے اور فوراً ٹھنڈی ہوا گھس آتی ہے، بچھونے برف ہو جاتے ہیں، حد تو یہ ہے آگ کی گرمی بھی مدھم پڑ جاتی ہے۔ موسمِ سرما