Book Name:Jhoot Ki Badboo

(ارشاد)ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبُو کی نسبت(یعنی اس کے بارے میں)رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی بدبُو ہے جومسلمانوں کی غِیْبَت کرتے ہیں اورہمیں جوجھوٹ یا غِیْبَت کی بدبُو محسوس نہیں ہوتی، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس کے عادی ہو گئے، ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے مَحَلّے میں جو رہتاہے ،اُسے اُس کی بدبُو سے اِیذا(یعنی تکلیف)نہیں ہوتی،دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی جائے۔ مسلمان اِس نفیس فائدے(یعنی بہترین  نتیجے)کو یادرکھیں اوراپنے رَبّ(کریم)سے ڈریں،جھوٹ اور غِیْبَت تَرْک کریں(یعنی چھوڑدیں)۔کیامَعَاذَ اللہ منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا؟ باطِن(دل)کی ناک کُھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بد تر سڑاند (یعنی بدبُو)ہے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں،ص۱۳۵)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                        صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمَّد

اےعاشقانِ رسول!آپ نے  سُنا کہ جھوٹے کے منہ سے ایسی سخت بدبُو نکلتی ہے کہ رحمتِ الٰہی کے فرشتے ایک مِیل دُور ہوجاتے ہیں،  مگر ہمیں یہ بد بُو اس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ جھوٹ کی کثرت  کے سبب ہرطرف اس کی بدبُو کے بھبکے اُٹھ رہے ہوتے ہیں اورہماری ناک (Nose)اَٹ چکی  ہے ۔اس کو یوں سمجھئے کہ جب گٹر کی صفائی کی جارہی  ہو تو عام شخص اُس کی بدبُو کے باعث وہاں کھڑا نہیں رَہ سکتا،مگر بھنگی(Sweeper) کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا، اس لئے کہ اس کی ناک اس گندگی کی بدبُو سے اَٹ چکی ہوتی ہے۔ لہٰذاہمیں  اس بُری عادت سے اورجھوٹوں کی صُحبت سےبچنا  چاہیے کیونکہ جھوٹ بولنا ایسی بُری عادت ہے کہ اس کی وجہ سے ایمان  کمزور ہو جاتاہے،بار بارجھوٹ بولنا ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے،اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک پارہ 14سُوْرَۃُ النَحْل کی آیت نمبر105میں