Book Name:Khof-e-Khuda Men Rony Ki Ahmiat

1۔ حضرت سَیِّدُنا ابو بِشر صالح مُرّی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  بڑے مُحدّث تھے اور زبردست مبلغ بھی تھے۔ بیان کے دوران خود ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ خوفِ الٰہی سے کانپتے اور لرزتے رہتے اور اس قدر پُھوٹ پُھوٹ کر روتے جیسے کوئی عورت اپنے اکلوتے بچےکے مر جانے پر روتی ہے ۔ کبھی کبھی تو شدتِ گِریہ اور بدن کے لرزنے سےان کے اعضا کے جوڑ اپنی جگہ سےہِل جاتے تھے ۔ آپ کے خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی قبر کو دیکھ لیتے تو دو دو، تین تین دن حیران وخاموش رہتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ۔ (اولیائے رجال الحدیث ص۱۵۱، از خوفِ خدا )

2۔ حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا دستور تھاکہ ہر رات علماء کو جمع کرتے، موت، قیامت اور آخرت کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روتے کہ معلوم ہوتا جیسے جنازہ سامنے رکھا ہے۔(مکاشفۃا لقلوب، ص۱۹۶)

3۔ حضرت سَیِّدُنا عطاء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بارے میں آتا ہے کہ کسی نے انہیں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ،یہ جب رونا شروع کرتے تو تین دن اور تین رات مسلسل روتے رہتے ۔ جب کبھی آسمان پر بادل ظاہر ہوتے اور بجلی کڑکتی تو ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ، بدن کانپنے لگتا، بے تاب ہوکر کبھی بیٹھتے کبھی کھڑے ہوتے، ساتھ ہی روتے ہوئے کہتے:شاید میری لغزشوں اور گناہوں کی وجہ سے اہلِ زمین کو کسی مصیبت میں مبتلا کیا جانے والا ہے ، جب میں مر جاؤں گا تو لوگوں کو بھی سکون حاصل ہو جائے گا ۔(خوفِ خدا، ص۸۵)

4۔ سلطانُ الہندحضرت خواجہ غریب نواز سیدحسن سنجری اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ زبردست ولی اللہ تھے۔ لیکن اُن پر خَوفِ خُدا اس قدر غالب تھا کہ ہمیشہ خَشِیَّتِ الٰہی سے کانپتے اور گِریہ وزاری کرتے رہتے تھے،خَلْقِ خُدا کوخَوْفِ خُدا کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے: اے لوگو!اگر تم زیرِخاک