Book Name:Khof-e-Khuda Men Rony Ki Ahmiat

دار ہوں۔“ تو رسولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ہم اپنی روزی کھارہے ہیں اور بلال کا ر ِزق جنّت میں بڑھ رہا ہے۔اے بلال ! کیا تمہیں خبر ہے کہ جب تک روزہ دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈّیاں تسبیح کرتی ہیں، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں۔( شُعَبُ الْاِیمان ج ۳ ص ۲۹۷حدیث ۳۵۸۶)

مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیْمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے، مگر دِلی اِرادے سے بُلائے جُھوٹی تَوَاضُع نہ کرے، اور آنے والا بھی جُھوٹ بول کر یہ نہ کہے کہ مجھے خواہش نہیں ، تاکہ بُھوک اور جُھوٹ کا اجتماع نہ ہوجائے، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے: بَارَکَ اللّٰہ( یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  برکت دے) یہ بھی معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات ، شاہِ موجُودات صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی عبادات نہیں چُھپانی چاہئیں بلکہ ظاہر کردی جائیں تاکہ حُضُورِ پُرنُو ر ، شافِعِ یَوْمُ النُّشُوْر صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِس پر گواہ بن جائیں۔ یہ اظہار رِیا   نہیں۔( حضرتِ سیِّدُنا بلال کے روزے کا سُن کر جو کچھ فرمایا گیا اُس کی شرح یہ ہے) یعنی آج کی روزی ہم تو اپنی یہیں کھائے لیتے ہیں اور حضرتِ بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ  اس کے عِوَض ( عِ۔ وَض ) جنّت میں کھائیں گے وہ عِوَض ( یعنی بدلہ ) اِس سے بہتر بھی ہوگا اور زِیادہ بھی۔ حدیث بالکل اپنے ظاہری معنی پر ہے، واقعی اُس وقت روزہ دار کی ہر ہڈّی و جوڑ بلکہ رگ رگ تسبیح ( یعنی اللہ پاک کی پاکی بیان) کرتی ہے، جس کا روزہ دار کو پتا نہیں ہوتا مگرسرکار ِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنتے ہیں۔  (مرآۃ ج ۳، ص ۲۰۲بتغیر قلیل )

اگرمُطالَعہ کرلیا ہو تب بھی دونوں رِسالے ( ۱)’’ کفن کی واپسی مَعَ رجب کی بہاریں ‘‘اور (۲) ’’آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینا‘‘ پڑ ھ لیجئے۔ نیز ہر سال  شَعْبانُ الْمُعَظَّممیں فیضانِ سُنّت جلداوّل