Book Name:Baron Ka Ihtiram Kejiye

عقائد کی پہچان ہوتی ہے،زندگی کا مقصدمعلوم ہوتا ہے، گُناہوں سے بیزاری اور نیکیوں میں رَغْبت نصیب ہوتی ہے،لوگوں کے دلوں میں عزّت قائم ہوجاتی ہے،دل کی صفائی ہوتی ہے ،دل میں خوفِ خدا و عشقِ مُصْطَفٰےبیدار ہوتا ہے،دنیا و آخرت بہتر ہوجاتی ہے،الغرض پیر و مُرشد کے اپنے مُریدین پر بے شمار اِحْسانات ہوتے  ہیں،لہٰذا اگر کوئی خوش نصیب مرشِدِ کامل کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو کر مُرید ہونے کی سعادت پالے،تو اُسے چاہیے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے ادب کا پیکر بنا رہے ۔ جو مُریدین دل و جان سے  اپنے پیر و مرشد کا  ادب كرتے ہیں،ان کے آداب و  حُقُوق میں سُستی نہیں کرتے تو ایسے سعادت مند مُریدین ہی ترقی کی منزلیں طے کرتے اور پیر و مرشد کے پیارے،محبوب اور منظورِ نظر بن کر اُبھرتے ہیں،پیر و مرشد کے احسانات و حقوق کس قدر زیادہ ہیں اور ان کا ادب و احترام کتنا ضروری ہے،اس کا اندازہ بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے ان ارشادات  سے لگائیے ،چنانچہ

حضرت سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتے ہیں:جب کوئی مُرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے چَلا تھا۔(ر سالہ قشیریہ، باب الادب ، ص ۳۱۹)

حضرت سَیِّدُنا خواجہ قُطبُ الدِّین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ سے جب یہ عرض کی گئی کہ پیر کا مرید پر کس قدر حق ہے؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مُرید عمر بھر حج کی راہ میں پِیر کو سر پر اُٹھائے رکھے تو بھی پیر کا حق اَدا نہیں ہو سکتا۔(ہشت بہشت، ص ۳۹۷)

حضرت سَیِّدُنا امام عبدُ الوہاب شعرانیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتے ہیں:مُریدکی شان یہ ہے کہ کبھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے اپنے مُرشِد کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے۔اگرچہ اپنے مرشِدکی ہزار(1000)سال خدمت کرے اور اس پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے کیونکہ جس مُرید