Book Name:Baron Ka Ihtiram Kejiye

دیتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پُشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پُوچھنا چاہو،مجھ سے پوچھ لو۔لوگوں نے عرض کی،آج کیا مُعَامَلَہ ہے؟آپ تو کسی سُوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا:جب تک میرے اُستاد حضرت سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ ظاہری زندگی سے مُتَّصِف تھے، ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے پرہیز کرتا تھا۔

لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے عِلْم کے مُطابق حضرت سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ ابھی ظاہری زندگی سے مُتَّصِف تھے۔لہٰذ الوگوں نے فوراً وہ وَقْت اور تاریخ نوٹ کرلی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے  کلام سے تھوڑی دیر پہلے ہی حضرتسَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ  کاانتقال ہوگیا تھا۔(تذکرۃ الاولیاء،۱/۲۲۹)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی اپنے اساتذۂ کرام سے ادب واحترام سے پیش آنا چاہیے کیونکہ ہم پر ان کے بڑے احسانات ہیں کہ یہ عِلْم کے ذریعے ہمیں اچھے بُرے کی تمیز سکھاتے ہیں، مُعاشرے کا اَہَم فرد بناتے ہیں،اخلاق وکردار کو سنوارنے کی کوشش کرتے  ہیں ،حضرت سَیِّدُنا عبدُاللہ بن مبارَک  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ فرماتے ہیں:ہمیں زیادہ عِلْم حاصل کرنے کے مُقابلے میں تھوڑا سا اَدَب حاصل کرنے کی زیادہ ضَرورت ہے۔(رسالۃ قشیریۃ ،باب الادب ، ص ۳۱۷)

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ  اُستاد كا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:(1)(شاگرد کو چاہیےکہ )اُستاد سے پہلے گفتگو شُروع نہ کرے۔(2)اس کی جگہ پراس کی غیرموجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔ (3) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔ (4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے اُستاد کے حق میں بُخل(یعنی کنجوسی)سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی(اپنی