Book Name:Faizan-e-Ashaab-e-Suffa

حضرت سيدنا عبد الله بن سعيد بن عاص زمانَۂ جاہلیت میں ان کا نام حَکَم تھا ، رَسُولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کا نام عبد اللہ رکھا، یہ بھی اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ زمانَۂ جاہلیت میں یہ  کاتب تھے(اسلام لانے کے بعد ) رَسُولُاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم فرمایا کہ مدینہ میں لوگوں کو لکھنا سکھائیں۔(اسد الغابۃ ،عبد اللہ بن سعید بن العاصی،۳/۲۶۶ملخصا)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

علم سیکھو اور سکھاؤ

      میٹھی میٹھی اسلامی  بہنو!سُبْحَانَ اللہ! یقیناً اگر جذبہ سچا ہوتو منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اَصْحابِ صُفّہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کاعِلْمِ دِین سیکھنے کا جذبہ چونکہ سچا تھا اس لئے وہ دلجمعی اور استقامت کے ساتھ اس پر گامزن رہے، فاقوں پر فاقے کرتے رہے، بھوک اور تنگی برداشت کرتے رہے لیکن اپنے مقصد (Purpose)سے پیچھے نہ ہٹے۔ غور کیجئے! ایک طرف اَصْحابِ صُفّہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا حُصُولِ علمِ دِین کا ایسا جذبہ تھا کہ کھانے پینے کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، ضروریاتِ زندگی میسر نہیں، بدن ڈھانپنے کے لئے  پورے کپڑے نہیں،  لیکن پھر بھی خوب شوق اور لگن سے علم دین حاصل کرنے میں مصروف ہوتے  جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانے پینے کی ہر طرح کی سہولیات ہمیں میسر ہیں، حصولِ علمِ دِین کے آسان ذرائع بھی موجود ہیں۔ مگر افسوس! صد کروڑ افسوس! ہم محض نفس وشیطان کے بہکاوے میں  آکر اور غفلت وسستی کی بنا پر اس عظیم سعادت سے محروم ہیں ،یہاں تک کہ فرض علم کے لئے بھی ہم وقت نہیں نکالتیں۔ یاد رکھئے! انسان جب تک کسی کام کو کرنے کےلئے ذہنی طور پر تیار نہ ہو، وہ کام کتنا ہی آسان  کیوں نہ ہو،مشکل لگتا ہے۔مگر جب اُس کا م کو کرنےکا پختہ  ذہن بنالیا جائے  اور اس کیلئے مقدور