Book Name:Walid K Sath Husn e Sulook
آجاتے ہیں اور نادان اولاد زبان درازی پر اُتر آتی ہے،باپ بیمار ہوجائے تو اسے ہسپتال لے جانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا،باپ جب تک کمانے کی مشین بنا رہے تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اگر بیمار ہوجائے،کام کاج کے لائق نہ رہے،خرچہ نہ دے پائے یا بڑھا پے کی دہلیز کو پہنچ جائے تو اولاد کے نزدیک اس کی اہمیت کسی بیکار چیز سے کم نہیں رہ جاتی، بچوں کی اَمّی کے انتقال کے بعد عُموماً باپ کی دنیا بے رونق سی ہوجاتی ہے،اسے تنہائیاں چُبھتی ہیں،ایسے میں اسے اولاد کی ہمدردی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر اولاد عیش کوشیوں میں کچھ ایسی مگن ہوتی ہے کہ اس کے پاس باپ کا حال پوچھنے کے لئے چند لمحات بھی نہیں نکل پاتے،خصوصاً شادی کے بعد باپ پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتےہیں اس کا تصور ہی دل دہلا دینے والا ہے،باپ لاکھوں روپے خرچ کرکے بچوں کی شادیاں کرتا ہے مگرشادی ہوتے ہی اولاد اور ان کی بیویاں اس مظلوم جان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں،وہ اولاد جس کو باپ نے بڑے ناز نخروں سے پالا تھا،جسے رو رو کر خدا سے مانگا تھا،علاج معالجے پر زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرڈالی تھی،اولیائے کرام کے مزارات پر جاکر دعائیں مانگی تھیں،نیک بندوں سے دعائیں کروائی تھیں،افسوس!ایک دن وہی اولاد اپنی بیویوں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے باپ کو ناراض کرتی،ان کا دل دکھاتی اوردھکے دے کر بے گھر کردیتی یا پھر اولڈ ہاؤس(Old House)چھوڑ آتی ہے، جہاں اسے اولاد کے ساتھ گزارے لمحات اور ان کی یادیں بے حد ستاتی اور خوب رُلاتی ہیں،باپ ہر گزرتے دن یہی امید لگاتا ہے کہ شاید آج میرا لعل آئے گا،مجھےسینے سے لگائے گا،مجھے گھرلے جائے گامگر آہ!دن گزرجاتا ہے لیکن کسی کا فون تک نہیں آتا۔الامان والحفیظ۔
مشہور کہاوت ہے:”جیسی کرنی ویسی بھرنی“!تو آج اگر ہم اپنے باپ کے ساتھ اس طرح کا نازیبا سُلوک کریں گی تو ممکن ہے کہ کل کو ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں ،جیسا کہ