Book Name:Nekiyon Ki Hirs Kesay Paida Ho

صفائی کرتے اورنماز ادا کرتے پھرصرف سبزیاں کھاکر پیٹ بھرلیتے کیونکہ وہاں کوئی جانور ہی موجود نہ تھاجس کا وہ گوشت کھاتے۔حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالقرنینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کا سادہ ترین طرزِ زندگی دیکھ کربڑی حیرت ہوئی،چنانچہ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنےان کےسردارسےپوچھا:میں نےتم لوگوں کو ایسی حالت میں دیکھا ہےکہ جس پر کسی دوسری قوم کونہیں دیکھا اس کی کیا وجہ ہے؟سردار نے سوال کی تفصیل پوچھی تو فرمایا:میرا مطلب یہ کہ تمہارے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے،تم سونا اور چاندی سے بھی نفع نہیں اٹھاتے!سردار کہنے لگا: ہم نےسونےاور چاندی کو اس لئے بُرا جانا کہ جس کےپاس تھوڑا بہت سونایاچاندی آجاتی ہےوہ انہی کےپیچھےدوڑنےلگتاہے۔آپ نےپوچھا: تم لوگ قبریں کیوں کھودتے ہو؟اور جب صبح ہوتی ہےتو ان کو صاف کرتے ہو ،وہاں نماز پڑھتے ہو۔ بولا: اس لئے کہ اگر ہمیں دنیا کی کوئی حرص و طمع ہوجائے توقبروں کو دیکھ کر ہم اس سے بازرہیں ۔

       آپ نےپوچھا:تمہارا کھانا صرف زمین کی سبزی (Vegetable)کیوں ہے؟ تم جانورکیوں نہیں پالتے تاکہ ان کادودھ حاصل کرو ،ان پر سواری کرو اوران کا گوشت کھاؤ؟سردارنے کہا: اس سبزی سے ہماری گزراوقات ہوجاتی ہےاورانسان کو زندگی گزارنےکےلیےادنیٰ چیزہی کافی ہےاور ویسےبھی حَلْق سے نیچےپہنچ کرسب چیزیں ایک جیسی ہوجاتی ہیں،ان کاذائقہ پیٹ میں محسوس نہیں ہوتا۔

       حضرتِ سَیِّدُناذُو القرنینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنےاس کی دانائی بھری باتیں سن کرپیش کش کی: میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اپنامشیر بنالوں گااور اپنی دولت میں سےبھی حصہ دوں گا۔مگر اس نے معذرت کرلی کہ میں اسی حال میں خوش ہوں۔(تاریخ مدینہ دمشق،ذکر من اسمہ ذو القرنین،۱۷/ ۳۵۳تا۳۵۵ ، ملخصاً)