Book Name:Madinay Ki Khasoosiyat

مختصر وضاحت:پہلے شعر میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ زائرِ مدینہ کو نصیحت کے مدنی پھول دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ  اے عاشقِ مدینہ!یاد رکھ!تُو کسی معمولی جگہ پر نہیں جارہا بلکہ مدینے کے سفر پر جارہا ہے ،لہٰذا غفلت کو چھوڑ اور عشقِ رسول سے سرشار ہوکر چل اور یاد رکھ کہ راہِ مدینہ کی عظمت تو یہ ہے کہ اس پر پاؤں رکھ کر چلنے کے بجائے آنکھوں اور سر کے بل چلا جائے۔

دوسرے شعر میں سرزمینِ مدینہ سے اپنی  محبت کا اظہار کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ اللہ اکبر!ہمارے قدم اُس خاکِ پاک پر ہیں کہ جسے نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدمین شریفین کا بوسہ لینے کی سعادت ملی اور جہاں پر فرشتے بھی اپنے سر رکھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔

            سُبْحٰنَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  ! سُناآپ نے! امام مالکرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کس قدر زبردست عاشقِ رسول، مدینے شریف سے مَحَبَّت اور اُس کا ادب کرنے والے تھے۔چونکہ آپ عالِمِ مدینہ بھی تھے لہٰذا ادب آپ کی طبیعت میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا جبکہ آج ہمارے معاشَرے کو عِلْم  و ادب دونوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے،عِلْم کی دولت پاس ہوگی تو ادب کی سعادت بھی ملے گی اور عِلْم سے خالی ہوں گے تو خطرہ ہے کہ بے ادَبی کی گہری کھائی میں جاگریں۔خُصوصاً  سَفرِ مدینہ کے دوران تو زائرِ مدینہ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور باادب رہنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے کہ یہ وہ در ہے جس کا ادب ہمارے ربِّ کریم نے ہمیں سکھایا ہے،لہٰذا اِس معاملے میں تھوڑی سی سُستی  وکوتاہی کا  مظاہرہ کرنا بہت بڑے نقصان کا سبب ہے۔آئیے !اِس بارے میں ایک عبرت ناک واقعہ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے ،چنانچہ

مدینے کی دہی  کی بے ادبی کا وبال

          ایک شخص مدیْنۂ مُنَوَّرَہ  میں ہر وَقْت  روتا اور معافی مانگتا رہتا، جب اُس سے اِس کی وجہ  پوچھی گئی تو اُس نے جواب   دیا۔ایک دن میں  نے مدینۂ طیبہ کے  دہی کو کھٹا اورخراب کہہ  دیا ، یہ کہتے ہی  میری نسبت( معرفت)سَلْب ہوگئی اور   مجھ پر عِتاب(غضب) ہواکہ  دیارِمحبوب  کی  دہی کو خراب کہنے  والے! نگاہِ مَحَبَّت  سے