Book Name:Madinay Ki Khasoosiyat

میں چھوڑ کر مدینہ نہیں جاتا نہیں جاتا

خلیفہ ہارونُ الرَّشید نے حضرت سَیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا: ’’کیا آپ کا کوئی گھر ہے؟“فرمایا:’’نہیں۔“تو اُس نے آپ کی خدمت میں 3 ہزار(Three Thousand)دِینار پیش کرتے ہوئے کہا کہ”اِن سے گھر خرید لیجئے!“آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے دِینار لے کر رکھ لئے اور انہیں خرچ نہ کیا ۔جب خلیفہ ہارونُ الرَّشید مدینۂمُنَوَّرَہ سے جانے لگا تو اُس نے آپ کی خدمت میں عرض کی:’’آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گاکیونکہ میں نے عَزم(اِرادہ) کیاہے کہ لوگوں کو(حدیثِ پاک کی مشہور کتاب)مُؤََطَّاپر جمع کروں، جس طرح امیرُالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا عثمان بن عَفَّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کیا تھا۔“آپ نے فرمایا:لوگوں کو صرفمُؤََطَّاپر اِکٹھا کرنے کا تو کوئی جواز نہیں کیونکہ اللہ پاک کے محبوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وِصالِ ظاہری کے بعد صحابَۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہِمْ اَجْمَعِیْن مختلف شہروں میں چلے گئے،وہاں انہوں نے اَحادیث بَیان  فرمائیں جس کی وجْہ سے اَب مصر کے ہر شخص کے پاس اَحادیث کا عِلْم ہے اور مُصْطَفٰے جانِ رحمت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی اِرْشاد فرمایا کہ’’میری اُمّت کا اِختلاف رحمت ہے۔“([1])اور رہا(مدینہ چھوڑ کر)تمہارے ساتھ جانا تو اِس کی بھی کوئی صورت نہیں کیونکہ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ”مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر وہ سمجھیں۔“([2])ایک روایت میں ہے: مدینہ(گناہوں کے)میل کو ایسے چُھڑاتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ دُور کرتی ہے۔‘‘ ([3])پھر آپ نے خلیفہ ہارونُ الرَّشید سے فرمایا:”یہ رہے تمہارے دِینار چاہو تو اِنہیں لے لو اور چاہو تو چھوڑ دو۔“یعنی تم مجھے اِسی وجْہ سے مدینہ چھوڑنے پر پابندکرتے ہو کہ تم نے


 

 



[1]جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن اثیر، الباب الرابع فی ذکر الائمۃ، الامام مالک، ج۱، ص۱۲۱

[2] مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، حدیث:۱۳۶۳، ص۷۱۰

[3]مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃ تففی شرارھا،حدیث:۱۳۸۱، ص۷۱۶۔حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس، ، حدیث:۸۹۴۲، ج۶، ص۳۶۱