Book Name:Shan e Sayedatuna Aisha Siddiqa

واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ملاحَظَہ کیجئے:(1)جب کوئی جنّتی شخص فوت ہوجاتا ہے،تو اللہ پاک حَیا فرماتا ہےکہ اُن لوگوں کو عذاب دے جو اِس کا جنازہ لے کر چلے اور جو اِس کے پیچھے چلے اور جنہوں نے اِس کی نمازِ جنازہ ادا کی۔(فِردَوس الْاخبار،۱/۲۸۲،حدیث ۱۱۰۸)(2)بندۂ مومِن کو مرنے کے بعد سب سے پہلی جزا یہ دی جائے گی کہ اُس کے تمام شرکائے جنازہ کی بَخْشِش کردی جائے گی۔(مُسندُ البزار، ۱۱/ ۸۶، حدیث: ۴۷۹۶)٭جنازے میں رضائے اِلٰہی،فَرْض کی ادائیگی،مَیِّت اور اُس کے عزیزوں کی دلجوئی وغیرہ اچّھی اچّھی نیّتوں سے شرکت کرنی چاہیے۔٭جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے اپنے اَنجام کے بارے میں سوچتے رہیے کہ جس طرح آج اِسے لے چلے ہیں،اِسی طرح ایک دن مجھے بھی لے جایا جائے گا،جس طرح اِسے مِٹّی تلے دَفن کیا جانے والا ہے،اِسی طرح میری بھی تدفین عمل میں لائی جائی گی۔اِس طرح غَوْر و فِکْر کرنا عبادت اور کارِ ثواب ہے۔٭جنازے کو کندھا دینا کارِ ثواب ہے،حدیثِ پاک میں ہے:’’جو جنازہ لے کر چالیس قدم چلے اُس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔“ایک اورحدیث شریف میں ہے:’’جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اُس کی مُستَقِل مغفِرت فرما دے گا۔“(جوہرہ،ص۱۳۹،دُرِّمُختار،۳/۱۵۸،۱۵۹،بہارِ شریعت،۱/۸۲۳)٭سُنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے۔پوری سُنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سِرہانے کندھا دے پھر سیدھی پائنتی(یعنی سیدھے پاؤں کی طرف)پھر اُلٹے سِرہانے پھر اُلٹی پائِنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے۔(عالمگیری،۱/۱۶۲،بہارِشریعت،۱/۸۲۲)٭جنازے کو کندھا دیتے وَقْت جان بوجھ کر ایذا دینے والے انداز میں لوگوں کو دھکے دینا جیساکہ بعض لوگ کسی شخصیّت کے جنازے میں کرتے ہیں یہ ناجائز وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے٭شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے،قَبْر میں بھی اُتار سکتا ہے اور مُنہ بھی دیکھ سکتا ہے۔صِرف غُسْل دینے اور بِلا حائل بدن کو چھُونے کی مُمانَعَت ہے۔(بہارِشریعت،۱/۸۱۲،۸۱۳)٭جنازے کے ساتھ بُلند آواز سے کَلِمَۂ