Book Name:Muaf Karny K Fazail

یہی انداز آپ کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتا ہے ،چنانچہ

مَدَنی وصِیّتیں

اَمیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف”غیبت کی تباہ کاریاں“کے صَفْحہ نمبر112پر تحریر فرماتے ہیں:مجھے جو کوئی گالی دے،بُرا بھلا کہے(غیبتیں  کرے )،زخمی کردے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں  اُسے اللہ  پاک کے لئے پیشگی مُعا ف کرچکا ہوں  ، مجھے ستانے والوں  سے کوئی انتِقام نہ لے۔بِالفرض کوئی مجھے شہید کردے تو میری طرف سے اُسے میرے حُقُوق مُعاف ہیں۔ وُرَثاء سے بھی درخواست ہے کہ اُسے اپنا حق مُعاف کر دیں(اور مُقَدّمہ وغیرہ دائر نہ کریں )۔

 اگرسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شَفاعَت کے صَدقے محشر میں  خُصوصی کرم ہوگیا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اپنے قاتِل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کوبھی جنّت میں  لیتا جاؤں  گابشرطیکہ اُس کا خاتِمہ ایمان پر ہوا ہو۔اگر میری شہادت عمل میں  آئے تو اِس کی وجہ سے کسی قسم کے ہنگامے اور ہڑتالیں  نہ کی جائیں۔اگرہڑتال(Strike)اِس کا نام ہے کہ لوگوں کا کاروبار زبردستی بند کروایا جائے، دکانوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ وغیرہ ہو تو بندوں  کی ایسی حَق تَلَفیوں  کو کوئی بھی مفتیِ اسلام جائز نہیں  کہہ سکتا ۔اِس طرح کیہڑتال حرام اور جہنّم میں  لے جانے والا کام ہے۔اِس طرح کے جذباتی اِقدامات سے دِین و دنیا کے نقصانات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں  آتا ۔ عُمُوماً ہڑتالی جلدہی تھک جاتے ہیں اور بالآخِر انتِظامیہ اُن پر قابو پالیتی ہے۔

    ضَروری وضاحت:قتلِ مُسلِم میں شرعاً تین(3)حُقوق ہیں:(1)حَقُّ اللہ(2)حقِّ مقتول(3)حقِّ وُرَثاء۔ مقتول نے اگر زندگی میں  پیشگی مُعاف کر دیا ہو تو صِرْف اُسی کا حق مُعاف ہوگا، حقُّ اللہ سے خُلاصی کیلئے سچّی تَوْبہ کرے، حقِّ ورَثاء کا تعلُّق صِرف وارِثوں  سے ہے وہ چاہیں  تو مُعاف کریں  ، چاہیں  تو قِصاص لیں۔ اگر دنیا میں  مُعافی یا قِصاص کی ترکیب نہ بنی تو قِیامت کے روز وُرَثا اپنے حق کا مُطالَبہ کر سکتے ہیں۔